باقی صدیقی کی تمام غزلیں غیر مردّف کوئی بھی نہ دے سکا سہارا دیکھ رہا ہے ان جانے لوگوں کا ریلا آپ کی برہمی کا وقت آیا اک کھلا پھول، ایک مرجھایا ہزار پھول کھلیں گے جو ایک مرجھایا نیند نہ آئی ساری رات دل کی صورت چپ ہیں کھیت خوب ہے تیری بزم کا دستور ہاتھ میں جام پاؤں میں زنجیر ساری دنیا ہے غماز ورنہ کرتا ہے کون پرسش حال نئی نئی ہے محبت، جواں جواں ہیں خیال ہر سائے کے ساتھ نہ ڈھل ستارے جھلملا اٹھے سر شام اور بھی ہیں دنیا کے کام مسکرانے لگے حیات کے غم وہ نگاہیں اٹھیں مگر کم کم اے ہستی کے خام سہارو دل بیٹھا جاتاہے سنبھالو اور بھی رات ہو گئی تاریک کیسے اپنا دیا جلائیں ختم ہونے پہ ہیں ملاقاتیں تیرے ٹوٹے ہوئے وعدے کا یقیں مسافروں کے ارادے بدل نہ جائیں کہیں لے آیا کہاں دل تپیدہ وہ دل چھوڑ کر جا رہا ہے زمانہ آئے مرے غمگسار آئے بہت غم کے ماروں نے پہلو بچائے راہرو کوئی نہ ٹھوکر کھائے آگے وحشت جس کو پکارے تلاطم بھی آئے سفینے بھی ڈولے عجب نہیں ترا در بھی نہ ان کو پہچانے ا لے آیا کہاں خیال تیرا پھر نہ آگے ترا فسانہ چلا دور کا غم قریب تر جانا جس نے تیرے ایما پر طے کیا سفر اپنا اور کچھ نشہ چڑھا ہے اپنا گئے جس در پہ تیرے در کے سوا کہیں کہاں ترا دیوانہ شرمسار ہوا تو کہاں آ کے عناں گیر ہوا دل کا حق ادا ہوا میرا قصہ بھی دور تک پہنچا راہ میں کیسا یہ ویرانہ پڑا آپ سے کام آ پڑا جس کا بھول گئے رستہ گھر کا اب تکلیف کرو نہ آے کا رنگ آنکھوں میں آ گیا دل کا کس کو ہے دماغ زندگی کا وہغم ملا کہ جس کا ازالہ نہ ہو سکا میں کارواں تھا، غباروں کا ساتھ دے نہ سکا تو جہاں آخری پردا ہو گا ایسے جینے کا سبب کیا ہو گا رہ کے گلشن میں بھی کیا کیجے گا احساس تلملا اٹھا، دل ڈولنے لگا شہر کیسا دکھائی دینے لگا وہ رنگ گل تھا کہ شعلہ تری ادا کا تھا چاندنی رات تھی اور کوئی لب بام نہ تھا دیر تک رہگزار کو دیکھا ہم یہ سمجھے حادثہ ٹلتا رہا … پر حادثہ چھاتا رہا نہ دنیا میرے کام آئی نہ میں دنیا کے کام آیا پھر جہان گزراں یاد آیا تیرے جلوؤں کا اثر یاد آیا کوئی کرتا ہوا فر یاد آیا دلکا آئنہ مگر یاد آیا درخت سے ہمیں سایہ جدا نظر آیا آگے کرے اک بندہ ناچیز رقم کیا عم ہستی کوئی غم کھائیں کیا کوئی سوئے قفس گیا تو کیا جو سر پہ لگا ہے ابھی وہ سنگ نہیں کیا اک نئے عم کی طرح ڈال گیا تصویر میری مجھ کو دکھا کر چلا گیا ب رہزن کی طرح کرتے ہیں ہم لوگ سفر اب ت دل بھی اب چپ ہے زباں کی صورت زندگی کو ہیں اور کام بہت ر تان ٹوٹی شراب خانے پر کیا تیریغم سے روشنی کچھ مل گئی ہے پھر ط گل غلط غنچے غلط خار غلط ل ہو گئے مست عاشقانِ غزل م جہاں کر دے کوئی افسانہ خواں ختم رہتے ہیں ترے خیال میں ہم اپنی دیواروں سے ٹکراتے ہیں ہم کیوں تجھ سے گریز کر گئے ہم زمانے کے مقابل ہو گئے ہم نہ کہنے پر بھی سب کچھ کہہ گئے ہم باز آئے اس آگہی سے ہم کتنے پردے اٹھائیں گے ہم ن جلتی شمع بجھائے کون و ہجوم شہر میں گھٹنے لگا ہے دم اب تو بے سدھ پڑا ہوں آخری پتھر بھی مار لو ہنسنا آیا ہے نہ رونا ہم کو لگ گیا رات کا دھڑکا ہم کو جو دکھاتا ہے زمانہ دیکھو سود دیکھا ہے اب زیاں دیکھو کتنے حسیں ہو جیتے رہو، خوش رہو، جہاں ہو آپ ہوں یا ہوا کا جھونکا ہو اس چپ میں بھی ہے جی کازیاں بولتے رہو ک ہم جانے کہاں رہے ہیں اب تک گ پہلے سے نہیں ہم کہ وہ پہلے سے نہیں لوگ ورنہ اک قافلہ ملک عدم ہیں ہم لوگ اک مجسم سوال ہیں ہم لوگ ں چھوڑو نہ کرو بات کہ میں تم ے خفا ہوں سامنے تیرے آ رہا ہوں ملا ہے جو اختیار اس اختیار پر غور کر رہا ہوں کوئی تیرا ذکر چھیڑے اور میں سنتا رہوں مگر تجھ سے ہے دنیا بدگماں کیوں بے تابیاں سمٹ کے ترا نام بن گئیں تم بھی ذرا زلفوں کو سنوارو ہم بھی ذرا آرام کریں کوسنا رنگ اختیار کریں کون سے مہرباں کی بات کریں اداس پھرتے ہیں ہم بیریوں کی چھاؤں میں جانے کیا مصلحت ہے جینے میں یرے دشمن رہیں میرے دل میں اب کھٹکتی ہے نظر آنکھوں میں دشت کیسا پڑا ہے رستے میں ہنس پڑی دیکھ کر بہار ہمیں درد دل مانگ کے پھر کیا مانگیں انے نقش کف پا کیا دیکھیں زندگی کی ہنسی اڑاتے ہیں کوئی دیکھے تو نظر آتے ہیں گلشن میں کیوں یاد بگولے آتے ہیں زمانے کی باتیں وہ کب مانتے ہیں حادثے کچھ پس دیوار بھی ہیں لے تری بزم سے ہم جاتے ہیں بات اپنی پرائی کرتے ہیں خود سے ہم واسطہ کم رکھتے ہیں چل کے دو چار قدم دیکھتے ہیں اپنی زنجیر ہلا دیتے ہیں کس سے ہم آس لگا بیٹھے ہیں بجھ بجھ کے چراغ جل رہے ہیں جینے کے لئے ترس رہے ہیں کس کے لئے ترس رہے ہیں انداز جہان گزراں دیکھ رہے ہیں کون اے دوست باریاب نہیں ہم ابھی مرنے کو تیار نہیں تو نظر کے سامنے ہے یا نہیں ہے چیز کون سی جو تیرا شاہکار نہیں کون بچھڑا تھا ہاں یاد نہیں شعلہ صرصر ہے کہ صبا معلوم نہیں تاروں کو روند کر بھی سحر مطمئن نہیں چند اینٹوں کانام گھر تو نہیں دل سے اب پوچھ خدا ہے کہ نہیں ہیں کہیں صبح کے آثار! نہیں کوئی نہیں غم وہ شعلہ ہے جسے دنیا بجھا سکتی نہیں تم نہیں تو کوئی رونا بھی نہیں آؤ اس شوخ کا قصیدہ کہیں ھ حوصلہ بڑھ گیا سزا کے ساتھ بات جاتی رہی سوال کے ساتھ ہ ہم ہو گئے دنیا سے خفا اور زیادہ ٹوٹا نہیں ابھی ترے خوابوں کا سلسلہ ی کس توقع پہ دے صدا کوئی پھر بھی ان سے نہ ملاقات ہوئی پھر ایک بات چھڑی، ایک بات ختم ہوئی ان تک و ساتھ گردش شام و سحر گئی رُخ دریا کا موڑ گئی وہ سیر رنگ و بو کی تمنا کدھر گئی انگڑائی لے کے موج خرابات رہ گئی بات بنتی نطر نہیں آتی اتنی لمبی تو شب نہیں ہوتی کیا جلتی ہوئی آگ دکھائی نہیں دیتی کوئی اٹھ جائے بلا سے تیری بام افلاک سے اتر ساقی اپنی ہوا میں اڑتا ہے بے پر کا آدمی ہے گراں خود پہ اک نظر اپنی کر نہ تکلیف مسکرانے کی پہلی سی بات اب نہیں تیرے غلام کی کیسی صورت ہے یہ سفر کی ایک طوفاں کی ابتدا ہو گی امید اپنے سہاروں کو ساتھ لائے گی کسی کے خونکی بو راستوں سے آنے لگی مگر یوں زندگی ہو گی بسر بھی مرے لبوں پہ زمانے کی بات ہے پھر بھی کوئی ہم سے خفا تھا پہلے بھی ایک پردہ اٹھا تھا پہلے بھی سامنے ہے بھرا بازار ابھی فیصہ اک نگہ پر ہے ابھی تو مہرباں تھا تو دنیا بھی مہرباں تھی کبھی وہ مہرباں تھے تو ہر چیز مہرباں تھی کبھی راہگزر ہی میں رہے راہگزر کے ساتھی مجھے حیرت ہے تو حیرت ہی سہی ے متاع درد تو ہم راہ میں لٹا آئے لوگ اٹھائے ہوئے پتھر آئے سنبھل سنبھل کے ٹھکانے مرے حواس آئے حادثے زاد سفر لے آئے سامنے ان کے نہ بیٹھا جائے ایک طفاں کی ابتدا ہو جائے بہت روئے مگر رونے نہ پائے شہر کچھ اور بھی ویران ہوئے حادثات جہاں ہی کم نہ ہوئے تھامنا اے ضبط الفت ہم گئے دور تک ساتھ لپٹے ہوئے کچھ سائے گئے لے غم زیست ہار مان گئے چپ نہ ہوتے تھے مگر چپ ہو گئے ہم کہاں اور ٹھکانے پاتے ایسے بھی ہیں کچھ زخم کہ بھرنے نہیں پاتے رات بھر کیا صدائے پا سنتے تم نہ ہوتے تو ہم کہاں ہوتے ہے بات یہی دل میں تو اچھا کہہ دے بغض دوستاں چہرے لطف دشمناں چہرے آگے دل کی خوشی جہاں ٹھہرے ہم کچھ بھی نہ کہہ سکے یقیں سے آپ گئے ہیں جب سے روئی صبا لپٹ کے ہر اک شاخسار سے رند اٹھ جائیں نہ میخانے سے رند گھبرا کے نکل آئے ہیں میخانے سے ہم ہیں واقف قلب دشت انداز سے ہم ہوا میں بسر کریں کیسے کہاں ہیں زمانے کا غم کھانے والے ہم ترے واسطے مقتل میں تھے جانے والے قدم قدم پہ ملیں گے سنبھالنے والے منزل جلی، مقام جلے، کارواں جلے جہاں نے میکدوں کے نام بدلے کچھ مہرباں جدا ہوئے کچھ مہرباں ملے ساقی کا خون پی لیں جورندوں کا بس چلے فریب خوردہ تھے ہر مہرباں کے ساتھ چلے یہی رستہ تھا صبا کا پہلے صبر کا جام پی لیا ہم نے عظمت عشق بڑھا دی ہم نے کون کرتا ہے کرم دیوانے آئنہ ساتھ دے تو نظر آئنہ بنے دیکھتے دیکھتے ٹوٹے ہیں ستارے کتنے کارواں اک آ کے ٹھہرا سامنے تصویر کا رُخ ایک ہی رہتا ہے سامنے دنیا بقدر خون تمنا ہے سامنے کچھ نہ کچھ نذر جہاں کرنا پڑے دیکھو ہمیں بام سے اتر کے ہم بہت خوش ہیں آپ سے مل کے اﷲ رے حادثے سفر کے یہ راہگزر بھی دیکھ لیں گے لوگ اپنے دئیے جلانے لگے لوگ اب بھولتے جاتے ہیں مجھے اہل غم جانے تجھ کو کیا سمجھے تیرے جلوے یہاں وہاں دیکھے تشنۂ شوق ہر اک پہلو ہے کوئی تو بات ہونے والی ہے دور ابھی ایک شمع جلتی ہے منزل پہ چراغ سر منزل کا دھواں ہے روز کچھ بار سفر بڑھ جائے ہے کس حال میں قافلہ رواں ہے جام ہے، مے ہے، رسن ہے، دار ہے جہاں ہر آشنا بھی اجنبی ہے اڑتی ہوئی گرد پر نطر ہے اس طرح بھی جواب ملتا ہے وہ زمانے سے دور ہوتا ہے یقیں کتنا ہی پختہ ہو گماں تک ساتھ دیتا ہے یہ کیسا جال پھیلا ہوا ہے دل ترے درد کے سوا کیا ہے فسانے ہو چکے اب کام کی ضرورت ہے اس خانماں خراب کو گھر کی تلاش ہے زندگی کا کوئی انداز تو ہے جانے یہ سلسلہ کہاں تک ہے پہلی سی وہ اب صورت بازار نہیں ہے کیا کوئی ان کی خبر آئی ہے زیست ہر بات پہ کیوں چیں بہ جبیں ہوتی ہے دل میں جب کوئی بات ہوتی ہے جب تک کہ نظر نظر رہی ہے پھر بھی ہم ملنے کے ارماں میں رہے یا ہم شریک دیدہ حیراں نہیں رہے یہ جنس ہے گراں مگر ارزاں خریدئیے جیسا وہ کہتے ہیں ویسا کہیے فرد فرد Rate this:اسے شیئر کریں:Twitterفیس بکاسے پسند کریں:پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔