احمد فراز کی غزلیں ۔۔ ردیف وار غیر مردّف وہ قحطِ عشق کہ دشوار ہو گیا جینا آ آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لئے آ ؤ بڑا اداس سماں ہے قریب آ جاؤ ا کاش منزل سے بھی آگے کوئی رستا جاتا فراز اور اسے حال دل سنانے جا اگر چلا ہے تو جو کچھ مجھے دیا لے جا وہ تو کوئی دریا لے آیا دریا بھی سیلاب بھرا اتنا بھی کہا نہ مان میرا اب ذہن میں نہیں ہے پرنام تھا بھلا سا تھی طلب کس کو مگر ابر کہاں جا برسا وہی انداز ہے ظالم کا زمانے والا قرعۂ فال مرے نام کا اکثر نکلا مجھے گماں بھی نہ ہو اور تم بدل جانا یہ کیا کہ دل کو ہمیشہ اداس کر لانا اب کیا کہیں یہ قصہ پرانا بہت ہوا کوئی نامہ نہ ترے در بدروں تک پہنچا بات کر تجھ پر گماں ہونے لگا تصویر کا جب اپنے طور یہی تھے تو کیا گلہ اس کا وقت کا کیا ہے، گزرتا ہے گزر جائے گا مدتوں کے بعد کوئی ہمسفر اچھا لگا وہ میرے جھوٹ سے خوش تھا نہ سچ پہ راضی تھا مگر کچھ اور ہی انداز آج اس کا تھا جیسے اک فتنہ بیدار، رواں خواب میں تھا اک شعر بھی غزل میں اضافی نہیں کہا آج کیا جانیے کیا یاد آیا کہیںزخم بیچ میں آ گئے کہیںشعر کوئی سنا دیا میں میزبان تھا مجھے مہمان کر دیا ہجر کی رات بام پر ماہِ تمام رکھ دیا کہ تیری بات کی اور تیرا نام بھی نہ لیا کسی کے دھیان میں تم کھو گئے کیا مسافر گھر کو واپس آ گئے کیا ؟ جبکہ خود پتھر کو بت، بت کو خدا میں نے کیا ت تو مری پہلی محبت تھی مرے آخری دوست وگرنہ ترک تعلق کی صورتیں تھیں بہت ح دریدہ دامن و آشفتہ مو ہماری طرح ر جانے کس دیس گئے خواب ہمارے لے کر س گرچہ کہتے رہے مجھ سے میرے غم خوار کہ بس ل پھِر بھی لادے تو کوئی دوست ہمارے کی مثال نہ تھے اتنے بھی دل آزار قاتل جیسا بھی حال ہو نگہِ یار پر نہ کھول م یہ بھی بہت ہے، تجھ کو اگر بھول جائیں ہم چارہ گر روئینگے اور غمخوار بن جائیں گے ہم ن زخم پھولوں کی طرح مہکیں گے پر دیکھے گا کون و کہاں گیا ہے مرے شہر کے مسافر تو اب ہو چلا یقیں کہ برے ہم ہیں دوستو میں کب کا جا چکا ہوں صدائیں مجھے نہ دو "جالب ہن گل مک گئی اے "، ہن جان نوں ہی خیرات کرو بہت بڑا ہے سفر، تھوڑی دور ساتھ چلو شہر میں آوازوں کا کال پڑا لوگو جان اگر پیاری ہے پیارے مت لکھو جسموں کو برف، خون کو پانی کوئی لکھو اے جانِ جہاں یہ کوئی تم سا ہے کہ تم ہو کسے بزم شوق میں لائیں ہم دل بے قرار کوئی تو ہو وہ چارہ گر تو ہے اس کو خیال جو بھی ہو ک اب بھی میں چپ ہوں تو مجھ پر مرے اشعار پہ خاک ں سر بہ زانو ہے کوئی سر بہ گریباں جاناں یاد کیا تجھ کو دلائیں ترا پیماں جاناں وہ کسی خوابِ گریزاں میں مِلا ہے سو کہاں مر جائیے جو ایسے میں تنہائیاں بھی ہوں کیوں نہ اے دوست ہم جدا ہو جائیں جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں تمام شہر لئے چھتریاں تھا رستے میں اب کہ ڈوبا ہوں تو سوکھے ہوئے دریاؤں میں تو تو اس بستی سے خوش خوش چلا گیا، اور میں؟ میں سوچ ہی رہا تھا کہ دل نے کہا کہ میں ہم کہ تصویر بنے بس تجھے تکتے جاویں جس طرح آئینے چہروں کو ترس جاتے ہیں وہ زخمۂ رگِ جاں توڑ کر نکلتے ہیں کیا بات ہے سرکار بڑی دیر سے چپ ہیں مختلف ہو کے بھی سب زندگیاں ایک سی ہیں کہ دوستوں میں، کبھی دشمنوں میں ہوتے ہیں حوصلے انتہا کے رکھتے ہیں عجب سفر ہے کہ بس ہمسفر کو دیکھتے ہیں کوئی بھی خواب ہو تعبیر گھر کی دیکھتے ہیں فراز اب ذرا لہجہ بدل کے دیکھتے ہیں تو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں کسے کسے ہے یہ آزار چل کے دیکھتے ہیں جانے کیا دور ہے، کیا لوگ ہیں، کیا کہتے ہیں دوستی تو اداس کرتی نہیں کی عبادت بھی تو وہ، جس کی جزا کوئی نہیں مگر قرار سے دن کٹ رہے ہوں یوں بھی نہیں دل بھی مانا نہیں کہ تجھ سے کہیں ھ اب تو ہم بات بھی کرتے ہیں غم خوار کے ساتھ ہر ایک سنگِ سرِ راہ کو خدا نہ سمجھ سو دوسروں کے لئے تجربے مثال کے رکھ ہ پھر بھی اپنے عہد پر قائم ہم اپنی جگہ ی کیا ماتمِ گل تھا کہ صبا تک نہیں آئی بِکنے کو ایک بھِیڑ ہے باہر لگی ہوئی اسے خبر ہی نہ تھی، خاک کیمیا تھی مری لوگ مر جائیں بلا سے تیری فراز تجھ کو نہ آئیں محبتیں کرنی صحرا کی تشنگی تھی سو دریا شراب پی آج پہلی بار اس سے میں نے بے وفائی کی وگرنہ زندگی ہم نے بھی کیا سے کیا نہیں کی دل نے چاہا بھی اگر، ہونٹوں نے جنبش نہیں کی سبھی نے اوڑھ رکھی ہے ردا اداسی کی بسانِ نقش بہ دیوار اب کہاں تو بھی بہت ملول تھا میں بھی، اداس تھا وہ بھی اب تو ہم لوگ گئے دیدۂ بے خواب سے بھی اس میں آسودگی زیادہ تھی کہ ماورائے غمِ جاں بھی ایک دنیا تھی تو میری زندگی تھی مگر بے وفا نہ تھی کوئی تو خندہ زن ہے چلو یار ہی سہی ے دوست بھی دل ہی دکھانے آئے یادِ جاناں سے کوئی شام نہ خالی جائے پھر آج دکھ بھی زیادہ ہے کیا کیا جائے وہ بت ہے یا خدا دیکھا نہ جائے کہ ہم سے دوست بہت بے خبر ہمارے ہوئے پھر جو بھی در ملا ہے اسی در کے ہو گئے ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے جو آج تو ہوتے ہیں مگر کل نہیں ہوتے بسمل ہو تو قاتل کو دعا کیوں نہیں دیتے اس کی آنکھوںکو مرے زخم کی گہرائی دے وہ محبّت کہ جو انساں کو پیمبر کر دے پر دل کی اداسی نہ در و بام سے اترے جو مستقل سکوت سے دل کو لہو کرے کہاں لے جاؤں تجھے اے دلِ تنہا میرے تو کہاں ہے مگر اے دوست پُرانے میرے کس رشک سے دیکھا مجھے غم خوار نے میرے غزل بہانہ کروں اور گنگناؤں اسے کہ ہم اداس بہت تھے مگر نہ تھے ایسے کوئی کس منہ سے کرے تم سے سُخن، تم جیسے تیرا ملنا بھی جدائی کی گھڑی ہو جیسے مجھ سے یا رب مرے لفظوں کی کمائی لے لے ان سے مت مل کہ انہیں روگ ہیں خوابوں والے اگبور میں جو شام گزاری نہیں بھولے کیا کہوں اب میں’ کہوں یا نہ کہوں‘ سے پہلے ہم کو جانا ہے کہیں شام سے پہلے پہلے گل نہ جانے بھی تو کیا باغ تو سارا جانے رسوائی سے ڈرنے والوں بات تمھی پھیلاؤ گے تنہائی میں رو لیں گے کہ ہم کو دستِ زمانہ کے زخم کاری لگے دل وہ بے مہر کہ رونے کے بہانے مانگے یہ قربت عارضی ہے کم سے کم تم جانتے تھے تو بہت دیر سے ملا ہے مجھے کس کو سیراب کرے وہ کسے پیاسا رکھے سو شک کا فائدہ اس کی نظر کو جاتا ہے کہ زہرِ غم کا نشہ بھی شراب جیسا ہے کہ ہم کو تیرا نہیں انتظار اپنا ہے کس برہمن نے کہا تھا کہ یہ سال اچھا ہے مگر چراغ نے لو کو سنبھال رکھا ہے بادل تھا برس کے چھٹ گیا ہے پہ کیا کریں ہمیں اک دوسرے کی عادت ہے یار لوگوں کی زبانی اور ہے پھر محبت اسی سے مشکل ہے شعر کیا کہوں کہ طبیعت میں روانی کم ہے یوں تو کہنے کو سبھی کہتے ہیں، یوں ہے، یوں ہے مگر دل کی اداسی کم نہیں ہے یاد سے دل کی ہم آغوشی ہوتی ہے تو نہیں ہوتا تو ہر شے میں کمی رہتی ہے جو شخص ساتھ نہیں اسکا عکس باقی ہے اغیار تو کرتے تھے سو اب یار کرے ہے ہم نوا گر، خوش رہے جیسے بھی حالوں میں رہے Rate this:اسے شیئر کریں:Click to share on Twitter (Opens in new window)Click to share on Facebook (Opens in new window)اسے پسند کریں:پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔