آفتاب اقبال شمیم کی تمام غزلیں ۔ ردیف وار غیر مردّف فرد فرد ہے کفِ باد میں جو، موسمِ افسوس کی گرد دن میں سپنے دیکھنا، آنکھوں کا معمول یہ چشم و لب ہیں یا کوئی آیت لکھی ہوئی کایا شیتل دھوپ کی، میرا دکھ کیا جانتی ؤ یہ کیا کہ لمس میں آتے ہی دوسرے ہو جاؤ مکالمے کے لئے عصر کی زبان میں آؤ ا تو اُس کے نام نقدِ جاں روانہ کیوں نہیں کرتا کبھی تقدیر کا خواہش سے سمجھوتا نہیں ہوتا اُنہی کے دم سے منوّر ہوا شعور مرا نکلا نہیں دیوار کے اندر کا اندھیرا عمر بھر سہتے رہو گے ہاتھ ملنے کی سزا وہ کہ جو کل نہ ہوا، کل نہیں ہونے والا مجھے اِن آٹھ پہروں سے کبھی باہر بلاؤ نا مجھے اتنا تو نہ اُداس کرو، کبھی آؤ نا! ترے سوا یہ کسی کو ہنر نہیں آنا اختیار ظلمت میں کچھ نہ کچھ کمی کرنا تم آدمی ہو، تو آدمی کی، ہتک نہ کرنا قصرِ بلقیس اِسے سمجھے سلیماں اپنا دیا ہم نے نہ دنیا کو، کچھ ایسا تھا دماغ اپنا میرا اداسیوں کا بنا گھر نہ دیکھنا چاہا تو گھٹا لینا چاہا تو بڑھا لینا کہا جو اُس نے وہی شہر کا اصول ہوا دل کہیں پر اور کہیں پر ذہن تھا بھٹکا ہوا بستی کے گوشے گوشے سے شور بلند ہوا آنکھ سے منظر، خبر سے واقعہ ٹوٹا ہوا یا آئینے سے چھین ہنر انعکاس کا کچھ ربط ہے ضرور خوشی سے ملال کا واقعہ ہے یہ ستمبر کی کسی سہ پہر کا منسوب ہے مجھی سے مقدر زمین کا صحیح ہوا ہے نہ ہو گا بگاڑ عمروں کا بے خزاں رکھتے ہیں ہم لوگ چمن آنکھوں کا پاگل سا شخص تھا جو سدھایا نہ جا سکا شہرِ مشرق میں بپا روزِ قیامت ہو چکا پھر اپنے جھوٹ کو تکرار سے سچ کر دکھائے گا وہ معجزہ جو وہاں ہوا ہے یہاں بھی ہو گا تمہارے جبر کو میں مسترد کرتا رہوں گا کوئی نہ شفق کا پھول ایسا، کوئی نہ ستارا ایسا تھا اٹھایا جاؤں تو پھر شاخ پر لگا کے دکھا دو بجے رات کے، سورج کو اُبھرتے دیکھا خود میں مثال نقشۂ دنیا بٹا رہا کہ میں تو اپنے ہی گھر میں سدا پرایا رہا اک اشکِ فراموش مرے دھیان میں آیا ریت سے جھُلسے ہوئے روئے زمیں کو دھو دیا اپنے لئے فریب سا ایجاد کر لیا یا قلم کی ہمت سے واقعہ بڑا ہے کیا یہی لگا کہ جیسے میرے سر سے آسماں گیا کسی آس پر، کسی یاس میں کبھی جی اُٹھا کبھی مر گیا یعنی منصوبہ زمانے کا مکمل ہو گیا کچھ سدھائے ہوئے جذبات سے آگے نہ گیا ت اُس سمت امیرِ مقتل بھی، ہے خصلت میں سفّاک بہت اس شہر میں ہمارے خدا وند ہیں بہت عشق کو حسن بنا دے وہ کرشمہ ہے بہت د آپ کو یار پسند اور مجھے دار پسند ک ہُوں قید ان کے درمیاں میعادِ ماہ و سال تک کہ اُس کی فہم سے باہر ہے کل کی ابجد تک ر دکھائے حیرانیوں کا منظر، بہے سمندر باقی رہے نہ قرضِ خموشی زبان پر صنوبر سا کھڑا ہوں شانِ تنہائی کے پربت پر کبھی بس چلا بھی ہے انکارِ خاموش پر ناخن سے اک خراش لگا آسمان پر کھلا لگتا ہے، لیکن بند ہے میرا مکاں مجھ پر آپ اپنا سا منا اے آفتاب اقبال کر بوزنہ سا رہ گیا ہے ، قامت و قد کے بغیر ل بول رہا ہو کہیں ، جیسے خدائے خیال م منجمد ہوتی ہوئی اور پگھلتی ہوئی شام آؤ کہ منتظر ہے کوئی ہمکلامِ غم ں بس توجہ زیاد مانگتا ہوں بے ملاقات ملاقاتیں ہوں دلیلِ شعر میں تھوڑا سا کشف ڈالتا ہوں یادوں کا تعویذ ہمیشہ گلے میں ڈالے رکھتا ہوں اور دولتِ دنیا کو پاپوش پہ رکھتا ہوں بنانا جس کا ممکن تو نہیں ہے، پر بنانا چاہتا ہوں میں سوتے جاگتے کی داستاں میں رہ رہا ہوں اِس زمیں کی زردیوں میں لالیاں شامل ہوئیں رنگ کچھ ادھورے سے، تھرتھرائے آنسو میں تال سے باہر کبھی ہے اور کبھی ہے تال میں ہم نے بدل لیا ہے پیالہ گلاس میں بھٹک رہا ہوں گھاٹ گھاٹ روشنی کی پیاس میں روز گلگشت کرے خواہشوں کے گلشن میں زمین ایک خلل ہے مری اکائی میں گھنگھرو سایوں کے بجیں ڈھلتی دھوپ کے پاؤں میں آنکھیں پڑھ لیں اگلے دن کی دھوپ کا مضمون آنکھوں میں نقش اک زنداں ہے جس میں قید ہو جاتا ہوں میں خیال کی باغبانیاں کر اُگا یہ نظمیں وُہ دہشتیں ہیں کہ ہم شب کو شب بھی کہہ نہ سکیں قطرہ ٹوٹے تو روانی کا تماشا دیکھیں کوچۂ بند باہر تو نکل کر دیکھیں سرِ صلیب ایستادہ ہو گا خدائے انجیل، چل کے دیکھیں سارے نشیب جن کی اُٹھانوں پہ دنگ ہیں اب دن کے کٹہرے میں خطاوار کھڑی ہیں خدا والا ہوں لیکن دہریوں سے یاریاں بھی ہیں یا دل ملتا ہے یا منصب ملتے ہیں مانگ جن کی ہے میں اُن چیزوں کا بیوپاری نہیں لہو کا ولولہ شاید مری ہوس میں نہیں کہ میرے کیسۂِ خواہش میں زر زیادہ نہیں میں ڈھونڈتا ہوں جِسے غالباً وہ ہے ہی نہیں واقعہ پردۂ ساعت سے نکلتا ہی نہیں جہل کو دانش کہیں ، بینا کو نابینا کہیں ن موجِ دریا کا سخن، غور سے سُن پیو، کہ اور زیادہ ہو روشنی روشن و اسی طریق سے اس رات کی سویر کرو اور جینا ہے تو مرنے کا ارادہ کر لو طاقِ اُمید میں یہ دیپ جلائے رکھو سب اصل کی نقلیں ہیں ، ذہنوں کے ورق دیکھو ایسے ابنائے زمانہ سے مجھے وحشت ہو سبطِ علی صبا ہو یا احمد شمیم ہو؟ پی کر بقدرِ حوصلہ مے خوار مست ہو یہ زمیں کوئی نہ ہو وہ آسماں کوئی نہ ہو ھ کرتا ہوں زندگی ولے نا چاریوں کے ساتھ کُھلے بھی تو زنجیر در کی رعایت کے ساتھ اس حوالے سے اپنی حقیقت سمجھ بے نیازیاں اُسکی، ہو کے آبدیدہ لکھ اس شہرِ تابناک کی پرچھائیاں بھی دیکھ ہ کہ فلک سے جوڑ کر بھی نہ ہوئی زمیں زیادہ اے میرے مستِ ہمہ وقت، سدا جیتا رہ ی ایک زمیں اور سرحد سرحد بٹی ہوئی دلہنیں فرش گل پر چلیں ، دور تک اُن کی آہٹ گئی کیا کیا جائے غزل پہ بھی ادھوری رہ گئی مرے حوصلے کو فزوں تر کرے ہار میری نیلی چھتری تھام کے تار پہ چلتا آدمی ملے بہ حیلۂ نو زندگی کی محرومی ہے ایک اور ہوا، اس ہوا سے آگے بھی اُس پہ وُہ رات بہت بھاری تھی دھوپ کی زرّیں قبا سو سو جگہ سے چاک تھی اور پورا دیکھنے سے آنکھ بھی معذور تھی کوئی ہم جیسا یہاں ہے تو سہی شاید اسی لئے ہمیں محبوب ہے یہی ے تھے جیب میں جو سکّے، رستے میں اُچھال آئے وہ شہ گلاب میری زندگی کے باغ میں آئے کوئی یہ سوکھی ہوئی دار ہری کر جائے بحر سے جا ملنے کا جادہ مل جائے رند کو تاجِ عرب، تختِ عجم مل جائے آدم زاد خدا بن جائے گھروں کو جوڑ دیا جائے تو نگر بن جائے یہ دنیا جابروں کے قہر سے آزاد ہو جائے بیٹھا ہوں پیشِ آئینہ ڈرے ہوئے بیٹھا ہوا ہوں دیر سے آنکھوں میں جاں لئے ہوئے رستے ہمارے پاؤں تلے سے سرک گئے ہو گیا جزوِ زمین و آسماں ، کیا پوچھئے ہے مفت کی شراب اسے پینا چاہئے آسماں جتنا بڑا پینے کو دریا چاہئے وا ذرا سا روزنِ تشکیک رکھنا چاہئے ضمیر بوئیے، افلاس کاٹتے رہئے جینے کا جب شوق نہیں تھا، مر جاتے اگر سر کو جھکا سکتے، تو ہم بھی معتبر ہوتے یہ وہ چراغ ہیں جو روشنی نہیں دیتے مکاں کو راس نہ آئے مکیں تو کیا کیجے میں ہی فرید اور میں ہی بلھے شاہ پیارے مکاں میں رہتے ہوئے بھی رہوں مکاں سے پرے گل کفِ شاخ کو حنائی کرے وہ زندگی کو بطورِ سزا قبول کرے لگائے جائیں ہزار پہرے، ہوا نہ ٹھہرے جیتوں نہ جیت سے کبھی ہاروں نہ ہار سے کہ جیسے پیرہن سرکے، کسی کے سانولے تن سے اُترے وُہ آفتاب لہو کے سپہر سے تو کیا یہ رات ٹلے گی نہیں مرے مر سے! کوئی جواب مِثل آب سادہ و جاں فزا ملے لطف تو آئے مگر سخت خرابی ہووے جیسے پشتِ دست پہ حرف کھدے ہوں نام کے معتبر مانئے حیلے اُس کے زرِ تہذیب کے بدلے اسے تہذیبِ زر دیں گے نشانِ سجدہ پڑا تھا اُس کا، جبیں سے آگے کہ اپنا اسم مجھے ہر کسی کا اسم لگے جن پہ برسائے گئے سنگِ ستم، کتنے ہی تھے کیا گلہ کرتے کہ ہم کچھ عادتاً اچھے ہی تھے ہے اُسکی ساری خدائی سے اختلاف مجھے غلام گردشِ ایام سے نکال مجھے کوئی بِن برسے بادل کو روک رکھے باقی سب خیریت ہے وہ جو ہم کثرت والوں میں یکتا ہے رقص کرتے ہوئے بوئے گل نے کہا، ہر کوئی ناچتا ہے وہ خود کو ثقلِ زمیں سے بچائے رکھتا ہے میرے تلخاب کو وہ جام بنا دیتا ہے تمنا کی تصور زاد دنیاؤں میں رہنا ہے ہمیں بنامِ وفا اُس نے آزمانا بہت ہے بقا بھی آئینہ دارِ بقا کی بخشش ہے اُس کے کم ہونے کا کفّارہ ادا کرنا تو ہے میں جانتا ہوں فلک میرے رہ گزار میں ہے کہنا اُسے، دنیا مجھے راس آئی نہیں ہے دنیا غیر ضروری تو ہو جاتی ہے وہ ہستی اپنے ہونے کے نشاں پوشیدہ رکھتی ہے سزائے موت، سارے شہر کو اُس نے سنا دی ہے وُہ نغمہ زار اس آواز کے بنجر سے آگے ہے سب روشنی اسی سے منسوب سی لگے ہے جب بھی کھینچوں اُسے، تصویر سے باہر ہی رہے یعنی شب کو جاگئے صبح کو دفتر جائیے Rate this:اسے شیئر کریں:Twitterفیس بکاسے پسند کریں:پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔