غیر مطبوعہ غزلیں

غیر مطبوعہ غزلیں

آفتاب اقبال شمیم

  1. دن میں سپنے دیکھنا، آنکھوں کا معمول
  2. تو اُس کے نام نقدِ جاں روانہ کیوں نہیں کرتا
  3. اُنہی کے دم سے منوّر ہوا شعور مرا
  4. عمر بھر سہتے رہو گے ہاتھ ملنے کی سزا
  5. اختیار ظلمت میں کچھ نہ کچھ کمی کرنا
  6. دیا ہم نے نہ دنیا کو، کچھ ایسا تھا دماغ اپنا
  7. قصرِ بلقیس اِسے سمجھے سلیماں اپنا
  8. میرا اداسیوں کا بنا گھر نہ دیکھنا
  9. چاہا تو گھٹا لینا چاہا تو بڑھا لینا
  10. کہا جو اُس نے وہی شہر کا اصول ہوا
  11. بستی کے گوشے گوشے سے شور بلند ہوا
  12. دل کہیں پر اور کہیں پر ذہن تھا بھٹکا ہوا
  13. کچھ ربط ہے ضرور خوشی سے ملال کا
  14. صحیح ہوا ہے نہ ہو گا بگاڑ عمروں کا
  15. شہرِ مشرق میں بپا روزِ قیامت ہو چکا
  16. پھر اپنے جھوٹ کو تکرار سے سچ کر دکھائے گا
  17. کوئی نہ شفق کا پھول ایسا، کوئی نہ ستارا ایسا تھا
  18. خود میں مثال نقشۂ دنیا بٹا رہا
  19. اپنے لئے فریب سا ایجاد کر لیا
  20. یہی لگا کہ جیسے میرے سر سے آسماں گیا
  21. اُس سمت امیرِ مقتل بھی، ہے خصلت میں سفّاک بہت
  22. آپ کو یار پسند اور مجھے دار پسند
  23. کبھی بس چلا بھی ہے انکارِ خاموش پر
  24. صنوبر سا کھڑا ہوں شانِ تنہائی کے پربت پر
  25. باقی رہے نہ قرضِ خموشی زبان پر
  26. کھلا لگتا ہے، لیکن بند ہے میرا مکاں مجھ پر
  27. آپ اپنا سا منا اے آفتاب اقبال کر
  28. موجِ دریا کا سخن، غور سے سُن
  29. طاقِ اُمید میں یہ دیپ جلائے رکھو
  30. سب اصل کی نقلیں ہیں ، ذہنوں کے ورق دیکھو
  31. سبطِ علی صبا ہو یا احمد شمیم ہو؟
  32. پی کر بقدرِ حوصلہ مے خوار مست ہو
  33. یہ زمیں کوئی نہ ہو وہ آسماں کوئی نہ ہو
  34. کہ اُس کی فہم سے باہر ہے کل کی ابجد تک
  35. بے ملاقات ملاقاتیں ہوں
  36. تال سے باہر کبھی ہے اور کبھی ہے تال میں
  37. روز گلگشت کرے خواہشوں کے گلشن میں
  38. آنکھیں پڑھ لیں اگلے دن کی دھوپ کا مضمون آنکھوں میں
  39. وُہ دہشتیں ہیں کہ ہم شب کو شب بھی کہہ نہ سکیں
  40. کوچۂ بند باہر تو نکل کر دیکھیں
  41. سارے نشیب جن کی اُٹھانوں پہ دنگ ہیں
  42. یا دل ملتا ہے یا منصب ملتے ہیں
  43. جہل کو دانش کہیں ، بینا کو نابینا کہیں
  44. کُھلے بھی تو زنجیر در کی رعایت کے ساتھ
  45. اس حوالے سے اپنی حقیقت سمجھ
  46. اس شہرِ تابناک کی پرچھائیاں بھی دیکھ
  47. مرے حوصلے کو فزوں تر کرے ہار میری
  48. ملے بہ حیلۂ نو زندگی کی محرومی
  49. ہے ایک اور ہوا، اس ہوا سے آگے بھی
  50. اُس پہ وُہ رات بہت بھاری تھی
  51. اور پورا دیکھنے سے آنکھ بھی معذور تھی
  52. کوئی ہم جیسا یہاں ہے تو سہی
  53. بحر سے جا ملنے کا جادہ مل جائے
  54. آدم زاد خدا بن جائے
  55. گھروں کو جوڑ دیا جائے تو نگر بن جائے
  56. بیٹھا ہوں پیشِ آئینہ ڈرے ہوئے
  57. بیٹھا ہوا ہوں دیر سے آنکھوں میں جاں لئے ہوئے
  58. یہ وہ چراغ ہیں جو روشنی نہیں دیتے
  59. میں ہی فرید اور میں ہی بلھے شاہ پیارے
  60. مکاں میں رہتے ہوئے بھی رہوں مکاں سے پرے
  61. گل کفِ شاخ کو حنائی کرے
  62. وہ زندگی کو بطورِ سزا قبول کرے
  63. تو کیا یہ رات ٹلے گی نہیں مرے مر سے!
  64. اُترے وُہ آفتاب لہو کے سپہر سے
  65. لطف تو آئے مگر سخت خرابی ہووے
  66. معتبر مانئے حیلے اُس کے
  67. جن پہ برسائے گئے سنگِ ستم، کتنے ہی تھے
  68. کیا گلہ کرتے کہ ہم کچھ عادتاً اچھے ہی تھے
  69. وہ جو ہم کثرت والوں میں یکتا ہے
  70. باقی سب خیریت ہے
  71. وہ خود کو ثقلِ زمیں سے بچائے رکھتا ہے
  72. اُس کے کم ہونے کا کفّارہ ادا کرنا تو ہے
  73. کہنا اُسے، دنیا مجھے راس آئی نہیں ہے
  74. سزائے موت، سارے شہر کو اُس نے سنا دی ہے
  75. وُہ نغمہ زار اس آواز کے بنجر سے آگے ہے
  76. سب روشنی اسی سے منسوب سی لگے ہے
  77. فرد فرد

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s