غیر مطبوعہ غزلیں
آفتاب اقبال شمیم
- دن میں سپنے دیکھنا، آنکھوں کا معمول
- تو اُس کے نام نقدِ جاں روانہ کیوں نہیں کرتا
- اُنہی کے دم سے منوّر ہوا شعور مرا
- عمر بھر سہتے رہو گے ہاتھ ملنے کی سزا
- اختیار ظلمت میں کچھ نہ کچھ کمی کرنا
- دیا ہم نے نہ دنیا کو، کچھ ایسا تھا دماغ اپنا
- قصرِ بلقیس اِسے سمجھے سلیماں اپنا
- میرا اداسیوں کا بنا گھر نہ دیکھنا
- چاہا تو گھٹا لینا چاہا تو بڑھا لینا
- کہا جو اُس نے وہی شہر کا اصول ہوا
- بستی کے گوشے گوشے سے شور بلند ہوا
- دل کہیں پر اور کہیں پر ذہن تھا بھٹکا ہوا
- کچھ ربط ہے ضرور خوشی سے ملال کا
- صحیح ہوا ہے نہ ہو گا بگاڑ عمروں کا
- شہرِ مشرق میں بپا روزِ قیامت ہو چکا
- پھر اپنے جھوٹ کو تکرار سے سچ کر دکھائے گا
- کوئی نہ شفق کا پھول ایسا، کوئی نہ ستارا ایسا تھا
- خود میں مثال نقشۂ دنیا بٹا رہا
- اپنے لئے فریب سا ایجاد کر لیا
- یہی لگا کہ جیسے میرے سر سے آسماں گیا
- اُس سمت امیرِ مقتل بھی، ہے خصلت میں سفّاک بہت
- آپ کو یار پسند اور مجھے دار پسند
- کبھی بس چلا بھی ہے انکارِ خاموش پر
- صنوبر سا کھڑا ہوں شانِ تنہائی کے پربت پر
- باقی رہے نہ قرضِ خموشی زبان پر
- کھلا لگتا ہے، لیکن بند ہے میرا مکاں مجھ پر
- آپ اپنا سا منا اے آفتاب اقبال کر
- موجِ دریا کا سخن، غور سے سُن
- طاقِ اُمید میں یہ دیپ جلائے رکھو
- سب اصل کی نقلیں ہیں ، ذہنوں کے ورق دیکھو
- سبطِ علی صبا ہو یا احمد شمیم ہو؟
- پی کر بقدرِ حوصلہ مے خوار مست ہو
- یہ زمیں کوئی نہ ہو وہ آسماں کوئی نہ ہو
- کہ اُس کی فہم سے باہر ہے کل کی ابجد تک
- بے ملاقات ملاقاتیں ہوں
- تال سے باہر کبھی ہے اور کبھی ہے تال میں
- روز گلگشت کرے خواہشوں کے گلشن میں
- آنکھیں پڑھ لیں اگلے دن کی دھوپ کا مضمون آنکھوں میں
- وُہ دہشتیں ہیں کہ ہم شب کو شب بھی کہہ نہ سکیں
- کوچۂ بند باہر تو نکل کر دیکھیں
- سارے نشیب جن کی اُٹھانوں پہ دنگ ہیں
- یا دل ملتا ہے یا منصب ملتے ہیں
- جہل کو دانش کہیں ، بینا کو نابینا کہیں
- کُھلے بھی تو زنجیر در کی رعایت کے ساتھ
- اس حوالے سے اپنی حقیقت سمجھ
- اس شہرِ تابناک کی پرچھائیاں بھی دیکھ
- مرے حوصلے کو فزوں تر کرے ہار میری
- ملے بہ حیلۂ نو زندگی کی محرومی
- ہے ایک اور ہوا، اس ہوا سے آگے بھی
- اُس پہ وُہ رات بہت بھاری تھی
- اور پورا دیکھنے سے آنکھ بھی معذور تھی
- کوئی ہم جیسا یہاں ہے تو سہی
- بحر سے جا ملنے کا جادہ مل جائے
- آدم زاد خدا بن جائے
- گھروں کو جوڑ دیا جائے تو نگر بن جائے
- بیٹھا ہوں پیشِ آئینہ ڈرے ہوئے
- بیٹھا ہوا ہوں دیر سے آنکھوں میں جاں لئے ہوئے
- یہ وہ چراغ ہیں جو روشنی نہیں دیتے
- میں ہی فرید اور میں ہی بلھے شاہ پیارے
- مکاں میں رہتے ہوئے بھی رہوں مکاں سے پرے
- گل کفِ شاخ کو حنائی کرے
- وہ زندگی کو بطورِ سزا قبول کرے
- تو کیا یہ رات ٹلے گی نہیں مرے مر سے!
- اُترے وُہ آفتاب لہو کے سپہر سے
- لطف تو آئے مگر سخت خرابی ہووے
- معتبر مانئے حیلے اُس کے
- جن پہ برسائے گئے سنگِ ستم، کتنے ہی تھے
- کیا گلہ کرتے کہ ہم کچھ عادتاً اچھے ہی تھے
- وہ جو ہم کثرت والوں میں یکتا ہے
- باقی سب خیریت ہے
- وہ خود کو ثقلِ زمیں سے بچائے رکھتا ہے
- اُس کے کم ہونے کا کفّارہ ادا کرنا تو ہے
- کہنا اُسے، دنیا مجھے راس آئی نہیں ہے
- سزائے موت، سارے شہر کو اُس نے سنا دی ہے
- وُہ نغمہ زار اس آواز کے بنجر سے آگے ہے
- سب روشنی اسی سے منسوب سی لگے ہے
- فرد فرد