سایہ نورد

سایہ نورد

آفتاب اقبال شمیم

  1. غلام گردشِ ایام سے نکال مجھے
  2. لگائے جائیں ہزار پہرے، ہوا نہ ٹھہرے
  3. جب بھی کھینچوں اُسے، تصویر سے باہر ہی رہے
  4. وا ذرا سا روزنِ تشکیک رکھنا چاہئے
  5. ایک زمیں اور سرحد سرحد بٹی ہوئی
  6. ناخن سے اک خراش لگا آسمان پر
  7. آؤ کہ منتظر ہے کوئی ہمکلامِ غم
  8. اور جینا ہے تو مرنے کا ارادہ کر لو
  9. کیا کیا جائے غزل پہ بھی ادھوری رہ گئی
  10. آسماں جتنا بڑا پینے کو دریا چاہئے
  11. اسی طریق سے اس رات کی سویر کرو
  12. بس توجہ زیاد مانگتا ہوں
  13. پیو، کہ اور زیادہ ہو روشنی روشن
  14. کرتا ہوں زندگی ولے نا چاریوں کے ساتھ
  15. منسوب ہے مجھی سے مقدر زمین کا
  16. بے نیازیاں اُسکی، ہو کے آبدیدہ لکھ
  17. نشانِ سجدہ پڑا تھا اُس کا، جبیں سے آگے
  18. قطرہ ٹوٹے تو روانی کا تماشا دیکھیں
  19. مجھے اِن آٹھ پہروں سے کبھی باہر بلاؤ نا
  20. نکلا نہیں دیوار کے اندر کا اندھیرا
  21. کوئی بِن برسے بادل کو روک رکھے
  22. یہ دنیا جابروں کے قہر سے آزاد ہو جائے
  23. ضمیر بوئیے، افلاس کاٹتے رہئے
  24. ہے کفِ باد میں جو، موسمِ افسوس کی گرد
  25. اِس زمیں کی زردیوں میں لالیاں شامل ہوئیں
  26. رند کو تاجِ عرب، تختِ عجم مل جائے
  27. وہ معجزہ جو وہاں ہوا ہے یہاں بھی ہو گا
  28. کسی آس پر، کسی یاس میں کبھی جی اُٹھا کبھی مر گیا
  29. دکھائے حیرانیوں کا منظر، بہے سمندر
  30. تم آدمی ہو، تو آدمی کی، ہتک نہ کرنا
  31. مجھے اتنا تو نہ اُداس کرو، کبھی آؤ نا!
  32. رقص کرتے ہوئے بوئے گل نے کہا، ہر کوئی ناچتا ہے
  33. کہ فلک سے جوڑ کر بھی نہ ہوئی زمیں زیادہ
  34. یعنی شب کو جاگئے صبح کو دفتر جائیے
  35. کوئی جواب مِثل آب سادہ و جاں فزا ملے
  36. ہے اُسکی ساری خدائی سے اختلاف مجھے
  37. ریت سے جھُلسے ہوئے روئے زمیں کو دھو دیا
  38. بول رہا ہو کہیں ، جیسے خدائے خیال
  39. اس شہر میں ہمارے خدا وند ہیں بہت
  40. ہُوں قید ان کے درمیاں میعادِ ماہ و سال تک
  41. شاید اسی لئے ہمیں محبوب ہے یہی
  42. رستے ہمارے پاؤں تلے سے سرک گئے
  43. ہے مفت کی شراب اسے پینا چاہئے
  44. دنیا غیر ضروری تو ہو جاتی ہے
  45. کبھی تقدیر کا خواہش سے سمجھوتا نہیں ہوتا
  46. لطف تو آئے مگر سخت خرابی ہووے
  47. اگر سر کو جھکا سکتے، تو ہم بھی معتبر ہوتے
  48. تمنا کی تصور زاد دنیاؤں میں رہنا ہے
  49. یا آئینے سے چھین ہنر انعکاس کا
  50. کہ جیسے پیرہن سرکے، کسی کے سانولے تن سے
  51. سرِ صلیب ایستادہ ہو گا خدائے انجیل، چل کے دیکھیں
  52. بے خزاں رکھتے ہیں ہم لوگ چمن آنکھوں کا
  53. جینے کا جب شوق نہیں تھا، مر جاتے
  54. آنکھ سے منظر، خبر سے واقعہ ٹوٹا ہوا
  55. یعنی منصوبہ زمانے کا مکمل ہو گیا
  56. کہ اپنا اسم مجھے ہر کسی کا اسم لگے
  57. گل کفِ شاخ کو حنائی کرے
  58. پاگل سا شخص تھا جو سدھایا نہ جا سکا
  59. جیسے پشتِ دست پہ حرف کھدے ہوں نام کے
  60. رنگ کچھ ادھورے سے، تھرتھرائے آنسو میں
  61. بھٹک رہا ہوں گھاٹ گھاٹ روشنی کی پیاس میں
  62. اٹھایا جاؤں تو پھر شاخ پر لگا کے دکھا
  63. کایا شیتل دھوپ کی، میرا دکھ کیا جانتی
  64. کچھ سدھائے ہوئے جذبات سے آگے نہ گیا
  65. واقعہ ہے یہ ستمبر کی کسی سہ پہر کا
  66. تھے جیب میں جو سکّے، رستے میں اُچھال آئے
  67. لہو کا ولولہ شاید مری ہوس میں نہیں
  68. دلہنیں فرش گل پر چلیں ، دور تک اُن کی آہٹ گئی
  69. گھنگھرو سایوں کے بجیں ڈھلتی دھوپ کے پاؤں میں
  70. دھوپ کی زرّیں قبا سو سو جگہ سے چاک تھی
  71. دو بجے رات کے، سورج کو اُبھرتے دیکھا
  72. اب دن کے کٹہرے میں خطاوار کھڑی ہیں
  73. کوئی یہ سوکھی ہوئی دار ہری کر جائے
  74. تمہارے جبر کو میں مسترد کرتا رہوں گا
  75. یہ کیا کہ لمس میں آتے ہی دوسرے ہو جاؤ
  76. نقش اک زنداں ہے جس میں قید ہو جاتا ہوں میں
  77. مکالمے کے لئے عصر کی زبان میں آؤ
  78. بنانا جس کا ممکن تو نہیں ہے، پر بنانا چاہتا ہوں
  79. میں سوتے جاگتے کی داستاں میں رہ رہا ہوں
  80. کہ میرے کیسۂِ خواہش میں زر زیادہ نہیں
  81. عشق کو حسن بنا دے وہ کرشمہ ہے بہت
  82. ہمیں بنامِ وفا اُس نے آزمانا بہت ہے
  83. وہ کہ جو کل نہ ہوا، کل نہیں ہونے والا
  84. دلیلِ شعر میں تھوڑا سا کشف ڈالتا ہوں
  85. نیلی چھتری تھام کے تار پہ چلتا آدمی
  86. بقا بھی آئینہ دارِ بقا کی بخشش ہے
  87. زمین ایک خلل ہے مری اکائی میں
  88. اک اشکِ فراموش مرے دھیان میں آیا
  89. وہ شہ گلاب میری زندگی کے باغ میں آئے
  90. یا قلم کی ہمت سے واقعہ بڑا ہے کیا
  91. اور دولتِ دنیا کو پاپوش پہ رکھتا ہوں
  92. ہم نے بدل لیا ہے پیالہ گلاس میں
  93. ایسے ابنائے زمانہ سے مجھے وحشت ہو
  94. میں جانتا ہوں فلک میرے رہ گزار میں ہے
  95. منجمد ہوتی ہوئی اور پگھلتی ہوئی شام
  96. اے میرے مستِ ہمہ وقت، سدا جیتا رہ
  97. یادوں کا تعویذ ہمیشہ گلے میں ڈالے رکھتا ہوں
  98. کہ میں تو اپنے ہی گھر میں سدا پرایا رہا
  99. ترے سوا یہ کسی کو ہنر نہیں آنا
  100. میں ڈھونڈتا ہوں جِسے غالباً وہ ہے ہی نہیں
  101. جیتوں نہ جیت سے کبھی ہاروں نہ ہار سے
  102. خیال کی باغبانیاں کر اُگا یہ نظمیں
  103. ہو گیا جزوِ زمین و آسماں ، کیا پوچھئے
  104. مانگ جن کی ہے میں اُن چیزوں کا بیوپاری نہیں
  105. وہ ہستی اپنے ہونے کے نشاں پوشیدہ رکھتی ہے
  106. خدا والا ہوں لیکن دہریوں سے یاریاں بھی ہیں
  107. زرِ تہذیب کے بدلے اسے تہذیبِ زر دیں گے
  108. واقعہ پردۂ ساعت سے نکلتا ہی نہیں
  109. میرے تلخاب کو وہ جام بنا دیتا ہے
  110. بوزنہ سا رہ گیا ہے ، قامت و قد کے بغیر
  111. مکاں کو راس نہ آئے مکیں تو کیا کیجے
  112. متفرق اشعار

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s