سایہ نورد
آفتاب اقبال شمیم
- غلام گردشِ ایام سے نکال مجھے
- لگائے جائیں ہزار پہرے، ہوا نہ ٹھہرے
- جب بھی کھینچوں اُسے، تصویر سے باہر ہی رہے
- وا ذرا سا روزنِ تشکیک رکھنا چاہئے
- ایک زمیں اور سرحد سرحد بٹی ہوئی
- ناخن سے اک خراش لگا آسمان پر
- آؤ کہ منتظر ہے کوئی ہمکلامِ غم
- اور جینا ہے تو مرنے کا ارادہ کر لو
- کیا کیا جائے غزل پہ بھی ادھوری رہ گئی
- آسماں جتنا بڑا پینے کو دریا چاہئے
- اسی طریق سے اس رات کی سویر کرو
- بس توجہ زیاد مانگتا ہوں
- پیو، کہ اور زیادہ ہو روشنی روشن
- کرتا ہوں زندگی ولے نا چاریوں کے ساتھ
- منسوب ہے مجھی سے مقدر زمین کا
- بے نیازیاں اُسکی، ہو کے آبدیدہ لکھ
- نشانِ سجدہ پڑا تھا اُس کا، جبیں سے آگے
- قطرہ ٹوٹے تو روانی کا تماشا دیکھیں
- مجھے اِن آٹھ پہروں سے کبھی باہر بلاؤ نا
- نکلا نہیں دیوار کے اندر کا اندھیرا
- کوئی بِن برسے بادل کو روک رکھے
- یہ دنیا جابروں کے قہر سے آزاد ہو جائے
- ضمیر بوئیے، افلاس کاٹتے رہئے
- ہے کفِ باد میں جو، موسمِ افسوس کی گرد
- اِس زمیں کی زردیوں میں لالیاں شامل ہوئیں
- رند کو تاجِ عرب، تختِ عجم مل جائے
- وہ معجزہ جو وہاں ہوا ہے یہاں بھی ہو گا
- کسی آس پر، کسی یاس میں کبھی جی اُٹھا کبھی مر گیا
- دکھائے حیرانیوں کا منظر، بہے سمندر
- تم آدمی ہو، تو آدمی کی، ہتک نہ کرنا
- مجھے اتنا تو نہ اُداس کرو، کبھی آؤ نا!
- رقص کرتے ہوئے بوئے گل نے کہا، ہر کوئی ناچتا ہے
- کہ فلک سے جوڑ کر بھی نہ ہوئی زمیں زیادہ
- یعنی شب کو جاگئے صبح کو دفتر جائیے
- کوئی جواب مِثل آب سادہ و جاں فزا ملے
- ہے اُسکی ساری خدائی سے اختلاف مجھے
- ریت سے جھُلسے ہوئے روئے زمیں کو دھو دیا
- بول رہا ہو کہیں ، جیسے خدائے خیال
- اس شہر میں ہمارے خدا وند ہیں بہت
- ہُوں قید ان کے درمیاں میعادِ ماہ و سال تک
- شاید اسی لئے ہمیں محبوب ہے یہی
- رستے ہمارے پاؤں تلے سے سرک گئے
- ہے مفت کی شراب اسے پینا چاہئے
- دنیا غیر ضروری تو ہو جاتی ہے
- کبھی تقدیر کا خواہش سے سمجھوتا نہیں ہوتا
- لطف تو آئے مگر سخت خرابی ہووے
- اگر سر کو جھکا سکتے، تو ہم بھی معتبر ہوتے
- تمنا کی تصور زاد دنیاؤں میں رہنا ہے
- یا آئینے سے چھین ہنر انعکاس کا
- کہ جیسے پیرہن سرکے، کسی کے سانولے تن سے
- سرِ صلیب ایستادہ ہو گا خدائے انجیل، چل کے دیکھیں
- بے خزاں رکھتے ہیں ہم لوگ چمن آنکھوں کا
- جینے کا جب شوق نہیں تھا، مر جاتے
- آنکھ سے منظر، خبر سے واقعہ ٹوٹا ہوا
- یعنی منصوبہ زمانے کا مکمل ہو گیا
- کہ اپنا اسم مجھے ہر کسی کا اسم لگے
- گل کفِ شاخ کو حنائی کرے
- پاگل سا شخص تھا جو سدھایا نہ جا سکا
- جیسے پشتِ دست پہ حرف کھدے ہوں نام کے
- رنگ کچھ ادھورے سے، تھرتھرائے آنسو میں
- بھٹک رہا ہوں گھاٹ گھاٹ روشنی کی پیاس میں
- اٹھایا جاؤں تو پھر شاخ پر لگا کے دکھا
- کایا شیتل دھوپ کی، میرا دکھ کیا جانتی
- کچھ سدھائے ہوئے جذبات سے آگے نہ گیا
- واقعہ ہے یہ ستمبر کی کسی سہ پہر کا
- تھے جیب میں جو سکّے، رستے میں اُچھال آئے
- لہو کا ولولہ شاید مری ہوس میں نہیں
- دلہنیں فرش گل پر چلیں ، دور تک اُن کی آہٹ گئی
- گھنگھرو سایوں کے بجیں ڈھلتی دھوپ کے پاؤں میں
- دھوپ کی زرّیں قبا سو سو جگہ سے چاک تھی
- دو بجے رات کے، سورج کو اُبھرتے دیکھا
- اب دن کے کٹہرے میں خطاوار کھڑی ہیں
- کوئی یہ سوکھی ہوئی دار ہری کر جائے
- تمہارے جبر کو میں مسترد کرتا رہوں گا
- یہ کیا کہ لمس میں آتے ہی دوسرے ہو جاؤ
- نقش اک زنداں ہے جس میں قید ہو جاتا ہوں میں
- مکالمے کے لئے عصر کی زبان میں آؤ
- بنانا جس کا ممکن تو نہیں ہے، پر بنانا چاہتا ہوں
- میں سوتے جاگتے کی داستاں میں رہ رہا ہوں
- کہ میرے کیسۂِ خواہش میں زر زیادہ نہیں
- عشق کو حسن بنا دے وہ کرشمہ ہے بہت
- ہمیں بنامِ وفا اُس نے آزمانا بہت ہے
- وہ کہ جو کل نہ ہوا، کل نہیں ہونے والا
- دلیلِ شعر میں تھوڑا سا کشف ڈالتا ہوں
- نیلی چھتری تھام کے تار پہ چلتا آدمی
- بقا بھی آئینہ دارِ بقا کی بخشش ہے
- زمین ایک خلل ہے مری اکائی میں
- اک اشکِ فراموش مرے دھیان میں آیا
- وہ شہ گلاب میری زندگی کے باغ میں آئے
- یا قلم کی ہمت سے واقعہ بڑا ہے کیا
- اور دولتِ دنیا کو پاپوش پہ رکھتا ہوں
- ہم نے بدل لیا ہے پیالہ گلاس میں
- ایسے ابنائے زمانہ سے مجھے وحشت ہو
- میں جانتا ہوں فلک میرے رہ گزار میں ہے
- منجمد ہوتی ہوئی اور پگھلتی ہوئی شام
- اے میرے مستِ ہمہ وقت، سدا جیتا رہ
- یادوں کا تعویذ ہمیشہ گلے میں ڈالے رکھتا ہوں
- کہ میں تو اپنے ہی گھر میں سدا پرایا رہا
- ترے سوا یہ کسی کو ہنر نہیں آنا
- میں ڈھونڈتا ہوں جِسے غالباً وہ ہے ہی نہیں
- جیتوں نہ جیت سے کبھی ہاروں نہ ہار سے
- خیال کی باغبانیاں کر اُگا یہ نظمیں
- ہو گیا جزوِ زمین و آسماں ، کیا پوچھئے
- مانگ جن کی ہے میں اُن چیزوں کا بیوپاری نہیں
- وہ ہستی اپنے ہونے کے نشاں پوشیدہ رکھتی ہے
- خدا والا ہوں لیکن دہریوں سے یاریاں بھی ہیں
- زرِ تہذیب کے بدلے اسے تہذیبِ زر دیں گے
- واقعہ پردۂ ساعت سے نکلتا ہی نہیں
- میرے تلخاب کو وہ جام بنا دیتا ہے
- بوزنہ سا رہ گیا ہے ، قامت و قد کے بغیر
- مکاں کو راس نہ آئے مکیں تو کیا کیجے
- متفرق اشعار