آنکھ بھر آسمان ۔ یاور ماجد انتساب ہم مگر ترسے، ۔۔۔ اور ہم تر سے بجھ جائے گا کچھ پل میں، ہوا تیز بہت ہے ایک ہی نظم عمر بھر لکھی شعروں میں اُس کا پھول سا پیکر تراشتے بوجھ تو ہر گھڑی کا یہ دکھ گاہ گاہ بھی نہ رہے کہاں جاتی ہے اس رفتار سے، اے روشنی! تھم جا اور چاک تک قفس کے مرے سَب سلے ہوئے ذرا سی خشک ہے، بنجر نہیں، مری ہی طرح ہمیں مجرم نہیں کہنا پنجرے میں اک اسیر کا تھا سر لہو لہو جو میرے سر پہ کوئی آسمان ہی ہوتا اس پیڑ سے ہی لپٹے رہیں گے خزاں میں ہم نہ کوئی آیا، کہ سہلائے میرا آخری زخم خزاں نہ جائے درونِ گردشِ دوراں ٹھہر کے دیکھتے ہیں وقت کی آندھی مجھے دُھول سمجھ کر نہ اُڑا روزن سے میرے آتی کوئی بھی کرن نہیں توڑو گگن کہ چاندنی ٹپکے دراڑ سے بالِشتیے ہالہ قمر کے گرد جو تھا، تنگ تر ہوا پھر اُس کے بعد کہیں جا کے سو گئی وہ شام دُھند ایسی دِل پہ چھائی ہے کہ چھٹتی ہی نہیں ہر کھلے در سے خوف آتا ہے آنکھ جب ذہن کے صحراؤں میں بوتی ہے نمی خوف وزن تو تھوڑا سا ہی اب جسم کی اس سِل میں ہے اک دیا تھا یہاں اے زمانے کہاں کھو گیا کس کو اس طرح بکھر جانا گوارا تھا مرا؟ جس سمت سے آتا ہے ادھر کیوں نہیں جاتا بے بسی یہ کیا کہ قائم و دائم مرے حواس نہیں؟ دن کو ہنستا گاتا ہے اور راتوں کو روتا ہے جی کوئی ان دیکھا گُماں اس میں مکیں رہتا ہے وقت بھی ایسے زخموں کا مرہم نئیں ہوتا دعا — بددعا رائیگانی! رائیگانی اور ہے ازل سے جاری بس اک ہی سفر کو دیکھتے ہیں آج کا نقاد لگائی پرندوں نے چوپال ہے لمحوں کو اوڑھے پہلو بدلتا ہوا سکُوت وہی سحر ہے کیا خبر، کون جیا کون مرا، کیا معلوم وہ آندھیاں اُڑیں سارے شجر ہی ٹوٹ گئے پیغام۔ ۱ پیغام -۲ دیکھنا دل میں خوشی آئی، کوئی غم تو نہیں؟ گرچہ دنیا کا یہ حق ہے ابھی تم کو دیکھے تسلسل لگ جائے تجھ کو آگ بھی میری دعا کے ساتھ چلا ہوں پاؤں میں عمر بھر کےغبار باندھے یہ سب تو ہونا ہی تھا ان سروں کی، دھیمے دھیمے خامہ فرسائی کرو اِک ویران سڑک کون اس راستے سے گزرا ہے؟ ہو وہ شکستِ خواب یا خوابِ شکست ہو یہاں سے شہر کو دیکھو مگر یہ ایک چکّر جو مرے پاؤں میں رہنا ہے لمحوں کی آبشار جب حیاتِ رفتنی تیری نہیں اُتر گیا مرے کندھوں سے دو جہان کا وزن حدود بندی اک ابرِ جاوداں سے پانی برس رہا ہے خود سے ہی اپنی ہم سری کب تک مامتا کے نام ہو گئی آج کی بھی شام تمام ملی ہے فرط میں یاؔور تری کمی مجھ کو پتھر بدن، صبا کی ادا کاٹتی رہی ادھوری موت دُور دِل سے خدا نہیں ہوتا ہر بار ہم نے اپنی سی کوشش ہزار کی دیکھ اے دِل اور کپڑوں کا رنگ بھی گہرا سب کی دنیا سے ماورا، تنہا آوارگی شام، شب اور حیات کمرے میں پھر آج بیٹھے ہیں زہر پی کے تمنّا شہر کی سیر کے لیے نکلا دشتِ حسرت مجھے نکلنے دے یقین ظلمتِ شب سے آج ہارے ہیں نہ بھول پاؤں گا بھول کر بھی کتنے خیال تشنۂ اظہار رہ گئے اظہار ہم تمہیں ڈھونڈنے دور تک جائیں گے بولیں خاموشی کے گھیروں میں چٹختے پتے ایک بھیانک سپنا Rate this:اسے شیئر کریں:Twitterفیس بکاسے پسند کریں:پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔