غیر مردّف
اس نے کل مڑ کے مجھ سے دل مانگا
وقت کی لامنتہی زنجیر کی کڑیاں تمام
ہم لب سے لگا کر جام، ہوئے بدنام، بڑے بدنام
روح میں ابھرے، پھاند کے سورج کے سیال سمندر کو
اک یہ ملک، اور رزق اور گیت اور خوشیاں
آؤ، آج ان مست ہواؤں میں بہہ جائیں
دور ایک بانسری پہ یہ دھن: ’پھر کب آؤ گے؟‘
ا
میں عمر اپنے لیے بھی تو کچھ بچا رکھتا
یہاں ہر قدم پر ہے ٹھوکر سنبھل جا
میں ان سے دور، وہ میرے قریب، کیا کہنا
کوئی نہیں جہاں میں کوئی نہیں کسی کا
اب آکاش سے پورب کا چرواہا ریوڑ ہانک چکا
سب کچھ بس اک نگاہِ کرم کا بہانہ تھا
بکھرا ہوا ہواؤں میں سایہ تمہارا تھا
کیا دن تھے، جب خیالِ تمنا لباس تھا
تمہارا ذکر رہا یا مرا فسانہ رہا
ر
اک تو کہ ہے طلسمِ شب و روز کا شکار
سینے پہ ایک درد کی سل رکھ کے بات کر
ڑ
مطرب، کوئی ترانہ بیادِ بہار چھیڑ
گ
آنسو تپتی ریت میں بو گئے کیا کیا لوگ
ل
اب تو اس مٹی کے ہر ذی روح ذرّے میں بھی ہے تصویرِ دل
حسیں گلاب کے پھول، ارغواں گلاب کے پھول
م
بیٹھے ہیں مہر و ماہ کی شمعیں بجھا کے ہم
ں
روح کی مدہوش بیداری کا ساماں ہو گئیں
دم گھٹ رہا ہے سایۂ ابرِ بہار میں
اے موجۂ ہوا، تہہِ زنجیر کون ہیں
کوئی بھی اب شریکِ غمِ آرزو نہیں
و
ختن ختن میں بہ انبوہِ صد غزالہ پھرو
ی
وہ خوش دلی جو دلوں کو دلوں سے جوڑ گئی
وہ رات گئی، وہ بات گئی، وہ ریت گئی، رت بیت گئی
اس برتاؤ میں ہے سب برتا دنیا کی
تجھ پر تری نگاہ سے چھپ کر نگاہ کی
ذرا سنا کہ ہے کچھ ذکر جس میں تیرا بھی
ہے میرے ساتھ تو اب ختم قرنِ آخر بھی
یہ موج تو تہہِ دریا کبھی رہی بھی نہ تھی
تج دو کہ برت لو، دل تو یہی، چن لو کہ گنوا دو، دن تو یہی
ے
وہ سب سمے جو ترے دھیان سے نہیں گزرے
کیے میں نے ہر اک ایواں کی چوکھٹ تھام کے شکوے
ہونٹوں کی لو لطیف حجابوں سے چھن پڑے
خود ہی لڑے بھنور سے! کیوں زحمت کی؟ ہم جو بیٹھے تھے
تری داستاں بھی عظیم ہے، مری داستاں بھی عظیم ہے
نہ اب وہ ان کی بےرخی نہ اب وہ التفات ہے
ترے لہو کی تڑپتی ہوئی حرارت ہے
کانٹوں سے الجھ کر جینا ہے، پھولوں سے لپٹ کر مرنا ہے
اک آنسو کی بوند میں دیکھو، دنیا دنیا، عالم عالم جل تھل ہے
خرید لوں میں یہ نقلی دوا، جو تو چاہے
یہ ایک صبح تو ہے سیرِ بوستاں کے لیے
اک جیون ہار ڈر سا ہے ترے دل کے لیے
سلام.وبسایتتون خیلی خوب و مفیده.به کارتون ادامه بدین
پسند کریںپسند کریں