شبِ رفتہ از مجید امجد
- مجید امجد ۔ سوانحی خاکہ
- حسن
- جوانی کی کہانی
- لمحاتِ فانی
- التماس
- شاعر
- صبحِ جدائی
- آوار گانِ فطرت سے
- بُندا
- خدا
- گلی کا چراغ
- پژمردہ پتیاں
- رخصت
- دنیا
- خودکشی
- سیرِ سرما
- کنواں
- سوکھا تنہا پتّا
- جینے والے
- راہگیر
- ۱۹۴۲ کا ایک جنگی پوسٹر
- ساتھی
- نہ اب وہ ان کی بےرخی نہ اب وہ التفات ہے
- دستک
- پھر کیا ہو؟
- گاڑی میں
- طلوع فرض
- کلبہ و ایواں
- دل دریا سمندروں ڈونگھے
- دور کے پیڑ
- چولھا
- پنواڑی
- واماندہ
- ایک نظم
- بن کی چڑیا
- بارش کے بعد
- ایک پُرنشاط جلوس کے ساتھ
- کوئی نہیں جہاں میں کوئی نہیں کسی کا
- یاد
- امروز
- ایک کوہستانی سفر کے دوران میں
- تیرے دیس میں
- میں ان سے دور، وہ میرے قریب، کیا کہنا
- جبر و اختیار
- راتوں کو۔۔۔
- سنورتے گئے، دن گزرتے گئے
- کوئی بھی اب شریکِ غمِ آرزو نہیں
- جہانِ قیصر و جم میں
- اب آکاش سے پورب کا چرواہا ریوڑ ہانک چکا
- رودادِ زمانہ
- ہم سفر
- اور آج سوچتا ہوں۔۔۔
- دورِ نو؟
- نژادِ نو
- کانٹے کلیاں
- تری داستاں بھی عظیم ہے، مری داستاں بھی عظیم ہے
- ارے یقینِ حیات
- درسِ ایام
- سنہری زلفوں کے مست سائے
- منٹو
- تمہارا ذکر رہا یا مرا فسانہ رہا
- کانٹوں سے الجھ کر جینا ہے، پھولوں سے لپٹ کر مرنا ہے
- افتاد
- زندگی، اے زندگی
- ہم لب سے لگا کر جام، ہوئے بدنام، بڑے بدنام
- کب آئیں گے وہ من مانے زمانے
- ساجن دیس کو جانا
- انجمن انجمن رہا تنہا
- وہ رات گئی، وہ بات گئی، وہ ریت گئی، رت بیت گئی
- بہ فرشِ خاک
- کون دیس گیو۔۔۔
- ہری بھری فصلو!
- ایسے بھی دن
- بس سٹینڈ پر
- آٹوگراف
- حسیں گلاب کے پھول، ارغواں گلاب کے پھول
- مقبرۂ جہانگیر
- ریوڑ
- کس قیامت کی رات گزری ہے
- پیش رَو
- رفتگاں
- آؤ، آج ان مست ہواؤں میں بہہ جائیں
- برہنہ
- جاروب کش
- حرفِ اّول