امروز از مجید امجد
- امروز
- پکار
- شاخِ چنار
- دو چیزیں
- کوئٹے تک
- کوئی رمزِ خرام، موجِ صبا
- میونخ
- سب کچھ بس اک نگاہِ کرم کا بہانہ تھا
- جیون دیس
- افسانے
- اے موجۂ ہوا، تہہِ زنجیر کون ہیں
- ریلوے سٹیشن پر
- ماڈرن لڑکیاں
- ہڑپّے کا ایک کتبہ
- ہونٹوں کی لو لطیف حجابوں سے چھن پڑے
- شناور
- وہ ایک دن بھی عجیب دن تھا
- ایک فوٹو
- دنیا سب کچھ تیرا۔۔۔
- نگاہِ بازگشت
- کیلنڈر کی تصویر
- آنسو تپتی ریت میں بو گئے کیا کیا لوگ
- سایوں کا سندیس
- توسیعِ شہر
- عیدالاضحیٰ
- سینے پہ ایک درد کی سل رکھ کے بات کر
- سفرِ درد
- نظم
- صدا بھی مرگِ صدا
- سنگت
- تجھ پر تری نگاہ سے چھپ کر نگاہ کی
- ہیولیٰ
- متروکہ مکان
- بہار
- صبح کے اجالے میں
- کیا دن تھے، جب خیالِ تمنا لباس تھا
- دوام
- بول انمول
- بھادوں
- بکھرا ہوا ہواؤں میں سایہ تمہارا تھا
- پامال
- معاشرہ
- ایرپورٹ تے
- صاحب کا فروٹ فارم
- یہ صراحی میں پھول نرگس کا
- دو دلوں کے درمیاں
- بارکش
- وقت
- لاہور
- حربے
- کارِ خیر
- وہ خوش دلی جو دلوں کو دلوں سے جوڑ گئی
- یہ موج تو تہہِ دریا کبھی رہی بھی نہ تھی
- مشاہیر
- اک آنسو کی بوند میں دیکھو، دنیا دنیا، عالم عالم جل تھل ہے
- دل پتھر کا۔۔۔
- ہوٹل میں
- ایک شام
- پہاڑوں کے بیٹے
- ذرا سنا کہ ہے کچھ ذکر جس میں تیرا بھی
- اب تو اس مٹی کے ہر ذی روح ذرّے میں بھی ہے تصویرِ دل
- ایکٹریس کا کنٹریکٹ
- سانحات
- ریزۂ جاں
- میرے خدا، مرے دل!
- پچاسویں پت جھڑ
- جلوسِ جہاں
- بے نشاں
- وہ سب سمے جو ترے دھیان سے نہیں گزرے
- ایک شبیہ
- ایک فلم دیکھ کر
- درونِ شہر
- یہ سرسبز پیڑوں کے سائے
- صدائے رفتگاں
- خطۂ پاک
- سپاہی
- یہ قصہ حاصلِ جاں ہے
- چہرۂ مسعود
- ہوس
- روح میں ابھرے، پھاند کے سورج کے سیال سمندر کو
- افریشیا
- مسیحا
- ننھے بچو!
- جہاں نورد
- کون دیکھے گا؟
- حضرت زینب
- اس نے کل مڑ کے مجھ سے دل مانگا
- یادوں کا دیس
- نوحہ