عرفان ستار کی غزلیں ۔۔ ردیف وار ا کچھ بھی نہیں بگڑا ابھی، عزت سے نکل جا یا کسی دن مری فرصت کو میسّر ہو جا کیا حال کہہ سکے گی، یہ چشمِ تر ہمارا بھلا کیا ہے سبھی کا، یہ ہے قصور مرا تو میں بتاوں گا خود کو کہ کیا بنا میرا کس قدر خستہ و خوں بستہ دروں ہے میرا یعنی زمینِ میر کو ہموار دیکھنا کچھ اور بات کرو ہم سے شاعری کے سوا اعلان کر دیا گیا میری شکست کا درد ہے، درد بھی قیامت کا مٹی تھا، سو مٹی ہو کر رہ جاؤں گا تم کہانی کے کس باب پر، اُس کے انجام سے کتنی دُوری پہ ہو اِس سے قطعِ نظر، دفعتاً یہ تمہارا بیاں ختم ہو جائے گا مگر جو کچھ نہیں، وہ سب یہاں باقی رہے گا جاگا تو میں خود اپنے ہی سرہانے بیٹھا تھا میں تنہا تھا، تجھ کو آنا چاہیئے تھا ہزار زخم سہے، اور دل بڑا رکھا اس آگہی سے میں تو کہیں کا نہیں رہا خود پر مجھے کسی کا بھی دھوکا نہیں رہا اُس کا قلق ہے ایسا کہ میں سو نہیں رہا بچھڑ گئے تو پھر ترا خیال کیوں نہیں رہا کل تو اک احساس نے میرے سامنے آ کر رقص کیا یہ اہتمامِ ملاقات گاہ گاہ بھی کیا فقط لگن سے نہیں، والہانہ پن سے کیا اک آئینہ تھا، اُسی کو سیاہ میں نے کیا میں جو اک شعلہ نژاد تھا ہوسِ قرار میں بجھ گیا تُو کہیں کھو گیا اور پہلو میں تیری شباہت لیے اک بدن رہ گیا د تیرے پہلو میں رہا میں اور رہا بھی دم بخود ر عذاب ایسا کسی روح پر نہیں، کوئی اور ف دھیان جا نکلا مگر اک روئے تاباں کی طرف ل کوئی تازہ غزل، پھر کسی نے کہا، پھر کسی کے لیے ایک تازہ غزل ں ترے فراق سے پہلے ہی میں جدا ہو جاؤں یاد کیا تجھ کو دلائیں ترا پیماں جاناں عجب یقین پسِ پردہ ءِ گماں ہے یہاں میں اپنا خواب کسی کو دکھانا چاہتا ہوں تجھ سے ملنے میں ترے خواب میں آیا ہُوا ہوں مجھے بدن سے نکالو، میں تنگ آ گیا ہوں میری جانب اک نظر اے دیدہ ور میں بھی تو ہوں یہ ترا واہمہ نہیں، میں ہوں عمر کا کچھ احوال نہیں ہے اور مآل میں زندہ ہوں یہ سب سُن کے مجھ کو بھی لگنے لگا ہے کہ میں واقعی اک بُرا آدمی ہوں کوئی کہیں بھی قتل ہو، مرتا تو میں بھی ہوں چلو اب مان بھی جاؤ، خدا نئیں یہ کہاں آگیا ہستی سے سرکتا ہُوا میں آ گیا خود میں بتدریج سمٹتا ہوا میں اک مصرعۂ تازہ بھی مگر کہہ نہ سکا میں بولتا کوئی کچھ بھی نہیں ہے مگر، ایک زنجیرِ در، خامشی اور میں سانسیں سانسوں میں مل جائیں، آنسو آنسو میں مجھ کو کہاں خبر تھی کہ اتنا برا ہوں میں ہر چند آئنہ ہوں، منور نہیں ہوں میں اب ترکِ مراسم سے بھی ڈرنے کا نہیں میں ان دنوں کوئی بہت سخت خفا ہے مجھ میں آج فضا کے بوجھل پن سے لہجے بھی سنجیدہ ہیں چمک رہے ہیں، مگر آئینہ نہیں ہوئے ہیں یعنی وہ سب جو ترا ہجر گزارے ہوئے ہیں کس مشکل سے نیند ٓتی ہے، پھر ہم خواب میں مر جاتے ہیں عجیب شہر ہے، سب لوگ جھوٹ بولتے ہیں ہم اہلِ حرف لگاتار خواب دیکھتے ہیں پھر ایک رنج سے دیوار و در کو دیکھتے ہیں ہم کسی شے کو بھی موجود کہاں چاہتے ہیں محرومی کے بوجھ تلے بے چارے رہتے ہیں کئی کروڑ سروں میں دماغ کتنے ہیں چند کو چھوڑ کے سب اہلِ قلم جھوٹے ہیں سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ ہم کیا کررہے ہیں نہ کر ملال کہ کوئی یہاں کسی کا نہیں وہ کام کر رہا ہوں جو دشوار تک نہیں کس کو معلوم کہ باہر بھی ہوا ہے کہ نہیں یہ منتہائے علم ہے جناب، عاجزی نہیں سو اب کسی کے نہ ہونے سے کچھ کمی بھی نہیں و کہ ماں کا حرفِ دعا بھی نہیں رہا اب تو موت جہاں بھی ناچ رہی ہے، ناچنے دو ابھی فرہاد و قیس آئے تھے کہنے مرحبا مجھ کو اب نہ رہیں گے ہم یہاں، پھر بھی یہاں کی خیر ہو جیسے دکھائی دے کوئی صورت، مگر نہ ہو وہ آئینہ ہوں جسے روشنی ہی راس نہ ہو وہ شے جو دل میں فراواں ہے بے دلی ہی نہ ہو ہ جانا ہے کب خبر نہیں، تیّار ہو کے رہ ی مجھے جس کا ڈر تھا وہی ہُوا، مری ساری عمر گزر گئی کہیں ہو نہ جاؤں میں رائگاں، مری آدھی عمر گزر گئی جبر کے اختیار میں، عمر گزار دی گئی تیری آسودہ حالی کی امید پر، کر گئے ہم تو اپنا زیاں یا اخی میں کہ ٹھہرا گدائے دیارِ سخن مجھ کو یہ ذمّہ داری کہاں سونپ دی تا ابد دھوم مچ گئی میری کہ ہم نے داد کی خواہش میں شاعری نہیں کی تری خواہش نہیں دل میں زیادہ دیر رہنے کی تُو جو موجود نہ ہوتا، تو کہاں تھے ہم بھی عجیب شخص ہے، اچھا بھی ہے، کمینہ بھی میں سر تا پا گماں ہوں آئنہ ہوتے ہوئے بھی بھُلا ہی دیں گے اگر دل میں کچھ گِلے ہوئے بھی ے آوارگانِ شہر کہاں جا کے مر گئے تیری یادوں کے جھونکے گزرتے رہے، تھپتھپاتے رہے، اور ہم سو گئے ہم آج خلوتِ جاں میں بھی بے دلی سے گئے یعنی بڑے جتن سے ہم، خود سے جدا کیے گئے گھر ہی جاسکتے تھے آوارہءِ شب، کیا کرتے کہ جو کہیں بھی نہیں اُس کی جستجو کرتے ایک قصے کی بھلا کتنی کہانی کرتے کہ میں محروم ہوتا جا رہا ہوں روشنی سے ہم تو سیدھے لوگ ہیں یارو، وہی پرانے والے دل تھا برباد مگر جائے اماں تھا پہلے ابھی تو زخم بھرے ہیں خدا خدا کر کے یہاں بھی ہوتا تھا ایک موسم بہار کر کے جو سانحے مرے دل پر گزر گئے ہوں گے پھر شہرِ کم نگاہ میں تنہا کیا مجھے گزار دیں گے یونہی کیا یہ ماہ و سال مجھے میری حالت تو کوئی دیکھنے والا سمجھے یا پیرہنِ گل میں، یا خون میں تر اٹھے بات کرنا نہیں آتی ہے تو کیوں بولتا ہے؟ اگر خوشی ہے تو کس بات کی، سبب کیا ہے؟ اور کہیں بیچ میں امکان کا پل پڑتا ہے لکھا ہُوا ہے مری جان، ہاں، لکھا ہوا ہے یہ تم خود ہو کہ مجھ کو آزمایا جا رہا ہے میں ایسا چاہتا کب تھا پر ایسا ہو گیا ہے بتادوں؟ مجھ سے خود اپنا پتہ گُم ہو گیا ہے مسلسل ایک حالت کے سوا کیا رہ گیا ہے اب تو بس معلوم کرنا ہے کہ کیا موجود ہے شوقِ بزم آرائی بھی تیری کمی کا جبر ہے جو تھا، نہیں ہے، اور نہ تھا، ہے، یہ عشق ہے شہرِ وجود سے بابِ عدم تک ایک سا ہُو کا عالم ہے جانِ من حُسن کی بات اپنی جگہ، مسئلہ کوئی اس کے سوا بھی تو ہے رویّوں کی اذیّت ناک یکسانی کہاں تک ہے یا پھر مرا وجود ہی بے زار مجھ میں ہے یہ یادگارِ یارِ کم آمیز مجھ میں ہے جو قید کر کے مجھے خود مری پناہ میں ہے ہمارے مسلکِ غم میں یہ ہاؤ ہُو نہیں ہے یقین مانو، کسی سے کوئی گلہ نہیں ہے سو دل نے بے طلبی اختیار کی ہوئی ہے تری خواہش ابھی ہے تو سہی، کم ہو گئی ہے یہ تنہائی ہے بس، خلوت نشینی اور ہوتی ہے اک طبیعت ہے کہ آزارِ ہنر کھینچتی ہے مہک اُداسی ہے، بادِ صبا اُداسی ہے ہمارے چاروں طرف روشنی ملال کی ہے جہاں پہ تُو بھی نہیں تھا وہاں بھی زندہ رہے کچھ بھی میرے سِوا یہاں نہ رہے اک تازہ زخم کی خواہش ہے اک صدمہ کم کرنے کے لیے چشمِ رمز آشنا، قلبِ عقدہ کشا، اک ذرا سی توجہ اِدھر چاہیے Rate this:اسے شیئر کریں:Twitterفیس بکاسے پسند کریں:پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔