کیفِ غزل کیفِ غزل کیفِ غزل ضامن جعفری لے دے کے فقط ساتھ ہے بے بال و پَری کا مت ذکرِ بہاراں مجھ سے کرو میں باغ سے ہو کر آیا ہُوں کچھ بھی ہوجائے پریشاں نہیں ہوتا کوئی جو ہاتھ دل پہ تھا یدِ بیضا نہیں ہُوا دِل پریشان ہے کہ کیا ہو گا لوگ کہتے ہیں کچھ ہُوا ہی نہیں دستِ گلچین را رگِ گُل نیشتر باید شُدَن اب مجھے یہ امتحاں کھَلنے لگا جُستُجو کیجئے خود کو کھو دیجئے سُرخ رُو کیجئے ہر سانس میں رچ بس جاتی ہے یہ آگ قیامت ہوتی ہے نَظَر نے جھُکنا ابھی تَو سیکھا ہے جب سے یہ کچھ بڑی ہُوئی ہے زَخمِ دِل ایسے سُلَگتا نہیں دیکھا کوئی کیا اہلِ خِرد کیفِ جنوں ڈھونڈ رہے ہیں عِشق بے نِسبَتِ "کُن” خُود "فَیَکُوں ” ہے یُوں ہے اُس کی جوانی کے مُنہ لگتا وقت کی کیا اوقات ہر لمحہ وہ رقصِ دل و جاں بھول گئے کیا ہم دِل زَدوں نے دل ہی کو مارا ہے بعد میں گُذرا ہے کوئی ٹُوٹا ہُوا دل لئے ہُوئے دامانِ آرزو، مِرے دَستِ دُعا میں تھا تمام شہر جَلا اُس کے گھر کا ذکر نہیں شہر میں آگ لَگا دی جائے خود سے ملتا ہوں تو پھر کھُل کے برستا ہوں میں اب تا بہ کےَ خرَد کا تماشہ دِکھائی دے اَب ذَوق نہیں ہے کہ تَماشا نہیں ہوتا یا دِل میں اُتَر جانا یا دِل سے اُتَر جانا نقشِ وفا ہُوں نقشِ کفِ پا نہیں ہُوں میں پھِر ہر اِک لمحہِ گُم گَشتہ کو رویا جائے تری مشقِ ستم پیہم نہیں ہے شایَد اَب اِسے کَرنا پَڑے تَرکِ وَطَن اَور زندہ ہیں راندۂ درگاہ تمہارے کیسے کیا یہاں رہتا ہے حق گوئی سے رغبت والا ہے کرب نمایاں تِرے انکار کے پیچھے لُغّتِ عشق میں حیرت کی زباں کہتے ہیں کہاں کہاں نہ مِرے دِل نے داغ چُن کے لیے محشر سے قبل کوئی نیا بندوبست ہو سکونِ قلب گریزاں ہے ہر فغاں خاموش مختصر سا ہے سَفَر ساماں بہت دِل کو آنکھوں میں رَکھ لِیا کیجے برق میرے بھی آشیاں سے چلی میانِ ہجر و وصال رکھ کر عجب قیامت سی ڈھا رہے ہیں ذرا سی دھول چَھٹے راستہ سجھائی تو دے زمیں زیرِ قَدَم سَر پَر خدا محسوس ہوتا ہے ہم نے بس ایک اِسی فن میں ریاضت کی ہے دفعتاً دیکھ کے نظروں کو جُھکایا کیوں تھا؟ اَیسی فَرسُودہ رسومات کو اَب رہنے دو شعورِ ذات کی منزل کے انتظار میں ہیں ڈھونڈتے ہیں ناخدا و کشتی و ساحل مجھے چھُپا ہے کون وہاں ، کس کے قاتلوں میں سے ہے ربط ہے، ہم سے سِوا، دل کو نگاہِ ناز سے آہِ سوزاں دیکھ! زخمِ دل دُھواں ہو جائے گا ہَمیَں یقین ہے ہَم زیبِ داستاں ہوں گے کیوں کہیَں اپنی جفا میری خوشی کہہ لیجیے اور اِدھر عشق کہ یہ بات سَمَجھتا ہی نہیں ہو کوئی بے بَصَر تَو بھَلا کیا دکھائی دے محبّت ہو گئی ہے کی نہیں ہے فَقَط نِگاہ تَو وجہِ یقیں نہیں ہوتی اِک بُت نے ہم کو صاحبِ ایمان کر دیا کیوں نہ ہَوں کیا کسی سے کم ہیں ہم حیرتِ آئینہ آئینے سے باہر آئے طوفاں مری خواہش ہیں تو گرداب مرے خواب ہر ایک شخص مجھے آئینہ سا لگتا ہے ڈھُونڈنا ہم کو اِن حَوالوں میں کوشش تَو بہت کی چل نہ سکا کچھ زور ہمارا کیا کرتے ذرا دوہرا مرا عہدِ شباب آہستہ آہستہ ہم سے جنوں کی بات کرو تم ہوش و خِرَد کو جانے دو وہ مثلِ آئینہ ہیں مقابل سے بے نیاز جس کا ڈر تھا یہ وہ گھڑی ہے میاں جو بھی کہیے صدا بہ صحرا ہے وہ ٹَہَر جائیں تو پھر وقت رواں کیسے ہو خیال و فکر کو رَستا سُجھانے والا کون ’’بجھا جاتا ہے دل چہرے کی تابانی نہیں جاتی‘‘ مگر یہ بات کہنے کی نہیں ہے میں ساری عُمر بُتوں کے قبول و رَد میں رہا کُھل گیا پَل میں بھَرَم دعویِٰ دانائی کا مِل بھی لیتے ہیں مگر بارِ گراں ہو جیسے ’’مُلتجی تھا تری تصویر سے گویائی کا‘‘ مجھ سے مجھ ہی میں ڈھل کے بات کرو وہ تب ملے گا جب اپنی خبر نہ رکھئے گا مبرّا داشتند از حاجتِ سیَرِ گلستانم تُو بُلائے گا بھی تَو آئے گا کون میں نے اپنے دِل پَر آنکھوں کو نگہباں کر دِیا کسی کو پِھر نظر انداز کر دیا میں نے ہمارے بارے میں کچھ کسی نے کہا سنا تھا تو ہم سے کہتے لمحہ لمحہ کسی بے درد پہ وارے جاؤ ہم جسے سُود سمجھتے تھے زِیاں ہے صاحب معجزہ ہے کہ جیے جاتا ہُوں میں وہ میں ہی نہ رَہا پِھر اَثَرِ عِشق کے بَعد مَیں کِتنے فخر سے اَپنا مقام دیکھتا ہُوں ما ایم در کمندِ تو اقرار کردہ ای کچھ اختیار کے کچھ بے بَسی کے قصّے ہیں مری تنہائی میرا قافلہ ہے کَہیِں بھی رہ، تُو مِرے دِل سے جا، یَہاں سے نکل نقوشِ ماضی، متاعِ رفتہ، بہ طاقِ نسیاں سجا رہا ہوں الزام دوسروں کو دیے جارہے ہیں ہم کوئی صدا مرے اندر سے آرہی ہے مُجھے تُو اُن کی بَزم میں کچھ دِن رَہا یہ کم تَو نہیں لَبَوں پر آہ اور آنکھوں میں نَم تَو ہو گا نا! یا خرابے میں فقط خوف و خَطَر زندہ ہے صیّاد کو گلشن سے نکلنا ہی پڑے گا وقت کی امانت ہیں قیمَتی حوالے ہیں اِک یہی قرض ہے باقی سو ادا کردوں کیا؟ حَریمِ ناز کے سارے مُعامَلات اَلَگ لو! خون کے چھینٹے سُوئے افلاک چلے ہیں موجیں سمجھ رہی ہیں کہ طوفاں نہیں ہیں ہم ندائے وقت ہے دار و رَسن پَہ پابندی اُس غزل چَشم کو رُولا ہی دے وہاں بھی پُرسِشِ اَفکار و آگَہی ہو گی ابھی کچھ کم ہیں اُلجھے! اَور اُلجھانے سے کیا ہو گا وہ کسی کو بھی کہیِں کا نہیں رہنے دیتا جُنوں کے نام ہر اِک سمت سے سلام آئے تَمام عُمر سَفَر میں نَہیں رَہا جاتا ہمیں چمن میں اِک امکاں نے روک رکّھا ہے متاعِ زیست کو وقفِ اَلَم کروں نہ کروں وہ خاک لے گا مِری خامیوں میں دلچسپی نظامِ ہستی رہے گا یوں ہی نکال لے کوئی راہ ساقی ہم کیا تھے محبّت کے حوالوں نے بَتایا کب مجھ پہ التفاتِ فراواں کروگے تُم تِرے ساتھ گُذرے موسِم مِرے نام ہو گئے ہیں رَہِ سُلوک و صَفا میں وضاحتیں کیسی پِھر فقَط میں اُور جنونِ آبلہ پائی رَہا سوچیے! وجہِ اضطرار ہے کیا؟ بارشِ سنگ میں گئے شعلوں کے درمیاں گئے ہر طرف حدِّ نظَر تک ہے بیاباں جاناں اُس کے انکار میں کچھ شائبہ اقرار کا ہے اب دیکھئے شکایتِ بیجا نہ کیجئے مبادا طنز ہو یہ بھی سو حَشر اُٹھایا نہیں ہَر اِک سوال پَر اُن کا جَواب دیکھا تھا؟ کدھر کے رُخ پہ ہے، پہلے بَہَاؤ دیکھ تو لو سَو کھوٹ جہاں تیرے اِک بات کھری میری وہ بے حِجاب رَہے لُطفِ عام کَرتے ہُوئے کیا تمہیں اپنی نظر کا خود بھی اندازہ نہیں ایک مَنظَر شکستہ حالوں میں ہر روز ایک زخم نیا چاہئے مجھے جرم جتنا ہے بس اُتنی ہی سزا دیں مجھ کو مُجھ سا کیا اَفلاک پَر کوئی نہ تھا وہ اگر ٹُوٹ کے بِکھرا ہو گا کس نے دل توڑا جو ہم یاد آئے اُڑ جاؤں گا لے کر پَرِ پَروازِ تخیّل پھر نقشِ خوش خرامیِ تقدیر کھینچتے مَت بھول مِرا عشق بھی چالاک بہت ہے میرا کمال یہ ہے میں مَر تَو نہیں گیا گمان یہ ہے کہ کچھ ہے مگر یقیں بھی نہیں سَمَجھ رہے ہیں جو کرنے تھے کام کر آئے ہر بار مگر زخم نئے کھول رہا ہے وجودِ حرف و قَلَم بال بال خون میں ہے پھر وہی ہم وہی پُرانے لوگ عجب میلہ سا میلہ تھا چراغاں سا چراغاں تھا رُوح و بدن کا کوئی مداوا کیے بغیر کیا ہنستے ہو اے دنیا والو، دیوانے کو بہلاتا ہُوں میں گِر کے اُٹھتا رَہا یَہاں تَک کہ ساری بَستی نے ہار مانی "اِس تَکَلُّف سے کہ گویا مَیکَدے کا دَر کُھلا” قیامت میں اَور اِک قیامت مچا دوں اَب ہَم رَہیں گے کوچہِ قاتل کے آس پاس کس کو ہے اختیار جتانا پڑا مجھے سبھی نے چِیر کے سینے دِکھا دیے اپنے وہ تنہا تھا تَو کتنا تھا یہ سمجھانا نہیں آتا اس کو تِرا اِک حَلقَہِ فِتراک بہت ہے محض خیال سے آگے نکل رہا ہے کوئی خزاں سے چھیِن کے لے آئیں گے بَہاروں کو زمانہ مجھ میں پِھر کیا دیکھتا ہے وہ بے گھری کہ جو ہوتی ہے گھر کے ہوتے ہُوئے اَگَر جَہاں میں نہ ہَم سا کوئی ہُوا ہوتا اَب کَہاں مُعجَزَہِ کُن فَیَکُوں ہوتا ہے تمہیں خبر کیا ہنسا ہے کیا کیا رُلا رُلا کے ہمیں زمانہ بھَلا بر وقت کس نے نیّتِ قاتل کو پہچانا اَب آرزو ہی نہیں ہے تَو جُستجو بھی نہیں محبّت ہے اُسے پر مانتا نئیں کیا یہ دن رات میری قید میں ہیں ؟ وہ جانے کیوں مجھے اِتنا حسیں معلوم ہوتا ہے کسی کو ترکِ تعلّق سَتا رہا ہو گا مرا جواب بھی اپنے سوال میں رکّھا اچّھا یہ میرے درد کا درماں کِیا گیا ہر بہانے ستا رہا ہے مجھے بس قیامت اب آنے والی ہے ہَر بَندِ قَفَس کو توڑا ہے ہَر دامِ فسوں سے گُذرے ہیں غُربَت نَصیب خوابِ وَطَن دیکھتے رَہے ہر گھڑی ہوش و خرَد کی گفتگو مت کیجٔو شایانِ شان مَدِّ مُقابِل تلاش کر بن بن میں گھومنا کوئی سَودائی ڈھونڈنا ہاتھ میں آئینہ نہیں ہوتا خُلوص و مہر و وفا در بَدَر گئے ہَوں گے میں دل کی بات جانے کب کَہُوں گا کُچھ روز اَپنے آپ سے بیگانہ ہو کے دیکھ جنونِ کوچَہِ جاناں ہے سَر فروشوں میں رَواجِ سجدہ ہُوا ہے نمازِ عِشق کے بَعد نظروں کا تصادم ہے ہم کو تمہیدِ شکستِ پیمانہ ہر بے وفا سے عہدِ وفا کر چکے ہیں ہَم پِھر کیسے دِوانے کو دِیوانہ کَہا جائے حالِ دِل پھِر ہَم نے محتاجِ بیاں رہنے دِیا مکان جس کا ہے وہ ہو گا خود مکیں کب تک ہَر اِک زَخم دِیوارِ دِل پَر سَجا دُوں پہلے ہم سے عشق جتایا اب ہم کو بد نام کریں گے تڑپ رہا ہے مرا نام لب پہ آنے کو سو خُود کو آئینہ دیکھا کِیا نکھرتے ہُوئے ہر اِک، اظہارِ حیرت کر رہا ہے اقرارِ محبت بھی کریں کیوں نہیں کرتے پھر جوشِ جنوں بیدار ہُوا پِھر عقل کو ہے جھنجلاہٹ سی ایک چھوٹی سی کہانی جو فسانہ ہو گیا چشم و دل کس کو سزا دوں مجھے معلوم نہیں نہ کوئی داد نہ فریاد ماجرا کیا ہے لغتِ عشق میں حیرت کی زباں کہتے ہیں کیا چہرہِ گُل اُترا ہُوا ہے کہ نہیں ہے تباہی پر مری راضی زمانہ ہو گیا ہے سُنا ہے جگ ہنسائی ہو رہی ہے انجمن میں کھا گیا احساسِ تنہائی مجھے تری محفل میں اب میری بَلا جائے تمہارے ہاتھوں میں خود ہیں خنجر، کہاں ہیں قاتل؟ دِکھاؤ ہم کو کیا کیفِ بیخودی ہے یہ سَودائیوں میں دیکھ تَو یہ بھی سیکھیں اِسے کس طرح سنبھالتے ہیں داند چمن کہ من زِ رقیبَم رمیدہ اَم قطعہ فارسی کب تَک وداعِ ہوش تَماشا کریں گے ہَم کوئی کَشِش مُجھے گُلشَن میں ڈال دیتی ہے میری آواز آ رَہی ہے کیا؟ میرَفت سُوئے منزل بر دوشِ سوگواراں ۔ قطعہ فارسی تھے ہی قَریبِ مَرگ ہَم آپ نے وار کیوں کِیا برہنہ لوگ مجھ سے لڑ رہے ہیں اُور عشق میں بھی اب یہ ضرورت نہیں رہی ہونا تھا جو وہ ہوچُکا، جیسا بھی فیصلہ ہُوا جو ظرف بھی خالی تھا وہ سر بند مِلا ابھی تو ہوش کو اُڑنا سِکھا رہے ہیں آپ جی بھر کے پھر اپنے کو دعا دی میں نے دل کو آنکھوں کا اعتبار آیا اُفق پہ یادوں کے سب وہی ہیں ، پرانے قصے پرانی باتیں پھینک دوں آئینے تمام؟ شورِ اَنا کا کیا کروں کچھ اثَر شاید دِکھایا آہِ بے تاثیر نے اِس کو فکرِ مآل کیسے دُوں تلاش کیجیے ضامنؔ یہیں کہیں ہو گا حقّا زِ رہروانِ رہِ راستیم ما ۔ قطعہ فارسی کرنی پَڑی ہے ہم کو چراغوں سے معذرت ہَم کہہ چُکے ہیں تُم بھی ذَرا کہہ کے دیکھ لو کیا بَڑھ گیا تھا دَست و گریباں کا فاصلہ؟ یہ فَیصلہ تَو مِیاں وَقت کے نَصیِب میں ہے چراغِ حسرتِ دل دوست جل رہے ہیں ہنوز فاصلے کِس بَلا کے رکّھے ہیں جہل ہے آگَہی ہے پھر ہے جنوں یہ میرا نطق ہے اِس کی زباں میں جو ہاتھ پَسِ پُشت ہے، اُس ہاتھ میں کیا ہے تیرے اِس خواب کی تَعبیر اِسی خواب میں ہے لوگ چَلتی ہَوا سے بَد ظَن ہیں تَسکیِنِ نَظَر تَو ہو گی مَگَر داغَوں کو نُمایاں کَر دیں گے مرے اشعار میں اپنے معانی ڈالنے والو دارالبَقا بَنانے کو معمار چاہیے فنا کی قید سے پابندیِ اَزَل سے نکل خامشی حُسن کی عادت کے سِواِ کچھ بھی نہیں ہوش و خِرَد کے سارے حوالوں سے دشمنی معلوم ہو مجھے بھی کہ کیا کچھ اَثَر میں ہے شاید کوئی کَمال تِرے سَنگِ دَر میں ہے گُمان ہوتا ہے جِس جا وہیں نہیں ہوتی خَموشی بولَے تَو پھِر بے تَکان بولتی ہے کُچھ مِری فِکر بھی ہے خوں میں شَرابور بہت اَزَل سے سب مکرّر ہو رَہا ہے میں آئینے کو مُسَلسَل نَظَر میں رَکھتا ہُوں کوئی تو ہے جسے میں نے یہ سب سنایا ہے خُود غَرَض کِتنا ہو گَیا ہُوں میں یہ لیجئے! ہم نے رَوِشِ آہ بدل دی ہم جو سَمجھے ہَیں کہو اِس میں وہی راز ہے کیا؟ اَب اِختیار ہَمیَں دو ہَمارے بَس میں رَہو تُو زندگی کے معانی بدل کے دیکھ ذرا اُفُقِ عَصر پہ تہذیب کے آثار ہیں ہَم حفظِ مراتب پلَیٹَو نِک لَو تحلیلِ نفسی محترم شان الحق حقّی صاحب خوابِ جَوانی تَجَسُّس شام غزہ ایک زلزلہ زدہ کی فریاد بیادِ جون ایلیا بیادِ سیّد ضمیر جعفری بیادِ عزمؔ بہزاد بیادِفرازؔ تدفینِ شان الحق حقّی صاحب فردیات Rate this:اسے شیئر کریں:Twitterفیس بکاسے پسند کریں:پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔