کلیاتِ شکیب جلالی ۔ غیر مدوّن کلام ۔ نظمیں اور قطعات شکیب جلالی گُل رنگ یہ زر تار سی بھوری کرنیں آس تنہا ستارہ روشنیوں کے دشمن ساتھی پاکیزگی چرواہے کا گیت کالا پتّھر نذرِ وطن آنکھیں پُرنم مبارک وہ ساعت رات کے پچھلے پہر چونکتے سایوں کی آواز شہادتِ حق منقبت پیامِ اقبال دلاسے مُجرم جشن بہاراں اس نے کہا نیا سویرا ہلالِ عید زنجیریں کھنڈر آفتاب ہو تم خانہ بدوش عظمتِ آدم سلام جوالا مکھی انتظارِ بہار طلوعِ سحر شعورِ آزادی موجِ خرامِ عید عید اے سرزمینِ الجزائر غمِکوہکن فریادی بہ یادِ قائدِ اعظم سراب الجیریا کے نام غازی کا ترانہ شعلہِ دل شہیدِ اعظم گیت عیدِ وطن جگر میں سوزِ نہاں ، لب پہ مسکراہٹ ہے چاندنی راتیں مجھے کرتی ہیں تلقینِ گناہ جانے کیوں ان کے سبز آنچل پر مسکراہٹ لَبوں پہ پھیکی سی مٹ گیا غم دیارِ غربت کا آج کی بات دوست کل پہ نہ ٹال ہر خوشی وقفِ اضطراب ہوئی میرے ہمراہ وہ اگر چلتے زندگانی کے ہاتھ سے ہمدم یہ حقیقت ہے جس قدر اُلجھیں موت سے کس لیے ڈراتے ہو یہ حقیقت ہے چُھپ نہیں سکتی یاد آؤ نہ اتنی رات گئے تیرے دو دن کے پیار پر ہمدم ان کو خودبیں بنا دیا میں نے جب بھی ان سے نگاہ ملتی ہے ہراساں ہیں تیز آندھیوں کے تھپیڑے اس طرح رنج کے دُھندلکے میں زندگی کے گھنے اندھیرے میں اہلِ غربت کی چاندنی راتیں دل میں بے شک ہیں خواہشوں کے ہجوم عہد و پیمان عشق و اُلفت کے یاسیت کی مُہیب راتوں میں میری نادان آرزوؤں نے اس قدر بُغض کیوں ہے آپس میں ہے ابھی تو خلوص دنیا میں آدمی میں اگر خُلوص نہ ہو کیسے مُخلص انھیں سمجھ لوں میں اتنی بے لوث تو نہیں دنیا دوستی کے لطیف پردے میں شبِ تاریک بیت جائے گی ایک غیرت شعار مفلس پر چاندنی رات اور یہ نظّارے کِھل گئے پُھول دیکھ کر ان کو چاند تارے ترے تبسّم سے رات بھر کروٹیں بدلتا ہوں ہم سے روشن ہیں محفلوں کے چراغ عشق کا احترام ہے لازم تیرے حالات اور ہی کچھ ہیں جِذبہِ اقتدار ہی تیرا ہر محبّت کی بات کو تم نے وسوسے دل کے بڑھتے جاتے ہیں نگارِ عید جو آئی مرے خیالوں میں ملاجو مژدہِ عیدِ سعید غربت میں جنھیں نصیب ہیں آسایشوں کے رنگ محل سبزہ زاروں میں روشنی کی کرن چُوڑیاں بج رہی ہیں کانوں میں کیسی پُرخار ہیں مری راہیں اس طرح رات کے دھندلکے میں یہ مرے دوست یہ معصوم سے لوگ منھ سے لگا کے چھوڑ دیا بادہِ نشاط گفتار کہَرخشندہ ستاروں کا تبسّم جذبہِ خام تو نہیں ہم لوگ نظروں میں نیا زمانہ ڈھلتا ہے حضور ہر رنج کو ہنس کے ٹال جاتا ہوں میں احساسِ غمِ سودوزیاں سے کیا کام تقلید کے بت توڑ کے رکھ دیتے ہیں آغوش میں ظلمت کی سُلاتے ہو انھیں مے خانہ بدوش یہ گُلابی آنکھیں انگ انگ میں بہتے ہوئے مہ پارے ہیں چاندی کے کٹوروں میں فوارے چھوٹے خوابیدہ کراہوں کی صدا آتی ہے آلام کا اظہار بھی منظور نہیں وہ رسمِ عنایات نہیں ہے پھر بھی آغوش میں ماہ پارے پالے ہم نے جب جوش میں خوابیدہ اُمنگ آتی ہے تقدیسِ شباب سے شرارے پھوٹے توبہ نے لچک کر یہ کہا ہے ساقی پتوں پہ ٹپکتی ہوئی شبنم کی چاپ رُک رُک کے سفینہ بہ رہا ہو جیسے بھر جائے گی پھولوں سے شفق کی جھولی اَوہام کے بت توڑ رہے ہیں ٹھہرو شرمندہِ اغیار رہے ہیں برسوں اک دُھند ہے‘ اک کُہر ہے‘ اک بدلی ہے گونجی ہے فضا میں کسی ذی روح کی چاپ ذوقِ نظارہ خام نہیں ہے وہ دُور کہیں باغ میں بلبل بولی فانوس کی لَو میں جِھلملاتا ہوں کبھی ساحل پہ اور ریت بچھانے سے فائدہ صبح بادل خاک بَسَر جاگے Rate this:اسے شیئر کریں:Twitterفیس بکاسے پسند کریں:پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔