کلیاتِ شکیب جلالی ۔ غیر مدوّن کلام ۔ غزلیں شکیب جلالی جام چھلکاؤ اندھیری رات ہے تمھیں بھی رُلانے کو جی چاہتا ہے گھٹا میں چاند آیا جا رہا ہے غم کا خُوگر بنا دیا تم نے کہ تیری یاد میں تیرا وصال ہے تُو ہے ان کا آنا موت کا گویا بہانہ ہو گیا اُداس چاند ستارو! کوئی تو بات کرو کیوں میرے دردِ دل کا مُداوا کرے کوئی داغِ جگر کو رشکِ گُلستاں بنا دیا اے حُکمِ شہریار، کہاں آگیا ہُوں میَں کھائے جاتی ہے مگر کیوں دوریِ منزل مجھے محبت بقدرِ محبت نہیں ہے اللہ کو اگر منظور نہ ہو، ہر مقصد باطل ہوتا ہے بڑا ہی کرم آپ فرما رہے ہیں بس اک نگاہِ کرم کا اُمیدوار ہوں میں جرأتِ جذبِ ذوقِ دید مانے تو آزما کے ہم اک موج وحشیوں پہ سِتَم کی گزر گئی ہم جس پہ مرمٹے وہ ہمارا نہ ہو سکا رنج و غم کی شکار ہے دنیا نہ جانے مٹ چکی ہیں کیسی کیسی ہستیاں اب تک گو کہ مُشتِ غُبار ہے انساں کیوں ہنس رہے ہو چاند ستارو، جواب دو بہکے بہکے جو یہ مے خوار نظر آتے ہیں مٹے ہیں لاکھوں ستارے ہی کہکشاں کے لیے دنیاے تخیّل مری آباد نہیں ہے دیوانوں کی تکراروں سے، خاموشیِ بیاباں ٹوٹ گئی کچھ اور بخش ڈالے انداز دل کشی کے خود کو اتنا سمجھ کے بھول گئے رشک کرتی ہیں فضائیں بھی شبستانوں کی نظر ہی سے ساقی شراب اٹھتے اٹھتے اک چراغِ رہ گزر ہے جو مری منزل میں ہے میں خوش ہوں اس لیے کہ کوئی مہرباں نہیں جلوے کسی کے، میری نظر نے سنوار کے آرزو میں بھی سادگی نہ رہی بُجھ رہی تھی شمعِ محفل، رقص میں پروانہ تھا کسی کے جلووں کی زَد پہ نظروں کا امتحاں یاد آرہا ہے وگرنہ عُذر نہ تھا آپ کو سُنانے میں مری توبہ کی خیر برسات آئی بہر صورت نمایاں گلستاں در گلستاں ہم ہیں جنوں نواز بہاروں کی کوئی بات کرو عشق کا احترام کرتے ہیں اک نیا دور ہو ساقی، نئے پیمانے کا نوازیں گے بڑھ کر اسے خود کنارے کب آزاد ہے زندگی کا سَفینہ حسن کے راز دار ہیں ہم لوگ اب جمالات سے بغاوت ہے حُسن کی زندگی محبت ہے چشمِ مے گوں تری یاد آئی ہے خدا گواہ بہاروں میں آگ لگ جائے عنوان دو ہیں اور مکمل فسانہ ہے مُرجھا رہے ہیں پھول بہاروں کے سائے میں کیجیے خم کار زلفوں کو پریشان کیجیے ہم نے گرا دیا جسے اپنی نگاہ سے راز داں اب قریب آ جائیں آپ سے ہاں ! مگر نہیں ہوتے لذتِ غم وہی تو پائیں گے نگاہوں سے بیاں دل کی کہانی اب بھی ہوتی ہے ہر گُلِ تر کی آنکھ بھر آئی جس سے ملے ہم دل سے مِلے شمع بن جاؤ رات اندھیری ہے ہم نے ایسے راگ سُنے حیات صَرفِ خرابات ہو گئی ہو گی میرا ہر فقرہ مکمل داستاں ہو جائے گا وہ چار پھول کہ جو حاصلِ بہار رہے میں ہوں کہیں، غبار کہیں، ہم سفر کہیں صحرا میں گلاب پل رہے ہیں آشناؤں نے مل کے لوٹ لیا ہم غمِ بے کنار کھو بیٹھے اک بار قیدیوں پہ قیامت گزر گئی میرا دل لُطفِ مسرّت کا سزاوار نہ ہو دنیا کو ہم بہ حُسنِ نظر دیکھتے رہے زخمی نظر سے چُوم لیا خار خار کو آمدِ صبحِ شب اندام پہ رونا آیا تیرے جگ کی ریت نرالی غم بہ اندازِ شادکامی ہے ان کی توقیر بن گیا ہوں میں سر بہ سجدہ ہے آگہی توبہ بدگمانی ہے تو ہر بات گراں گزرے گی ایک خواہش، ہزار تہ خانے بقدرِ فکر شکایت بدلتی رہتی ہے اجنبی طرز کے حالات سے دُکھ پہنچا ہے خلافِ حُسنِ توقع بہار گزری ہے وہ اِک نگاہ جو بیگانہ وار گُزری ہے بغیرِ شکایت مصائب میں جی لے یہ عجب پیار کے قانون ہوئے جاتے ہیں کس درجہ سست گام ہیں پھولوں کے قافلے میری جرأت نگہِ پیش نما رکھتی ہے ہمارے بانکپن کا تذکرہ ہے آنکھوں کی سنہری جھیلوں میں تصویریں سجدہ کرتی ہیں جس سمت نگاہیں اٹھتی ہیں پیمانے ہی پیمانے ہیں یہ شگفتِ گل کا موسم بڑا خوش گوار ہوتا کوئی بھی لذّت عام نہیں ہے سمن کدوں کو سجاؤ بہار آئی ہے شگُفتِ رنگ نہیں ہے تو پھر یہ سب کیا ہے جس کسی کے ساتھ مل بیٹھے اسی سے تم کو اُلفت ہو گئی ماحول میں رچ گئی سیاہی ایک مرکز پہ آگئے ہیں حواس ہُوا کا رخ نہ پہچانے بگولے مُطربہ چھیڑ دے خوشی کے گیت ظلمت میں اور ڈوب گئے بستیوں کے لوگ خزاں نے لُوٹ لیا ہے جنوں کا گہوارہ چاندنی گہنا گئی، کجلا گئی زنداں میں بھی جینے کا عجب ڈھنگ نکالا مدہوش نہیں تشنہ بہ لَب سوچ رہے ہیں ہم گردشِ ایّام سے گھبرائے ہوئے ہیں ہر روش پر گُل کتر جائے گی دھوپ زخموں کی طرح سِینہِ سوزاں میں رہے پُھول رُوپ کی مایا جن کو کر کر لمبے ہات مِلے کوئی موسم ہو مرا، زخم ہرا رہتا ہے صندل کے جنگلوں کی ہوا یاد آ گئی اب شمع بکف پھرتا ہے دیوانہِ مہتاب کچھ شرارے بھی رگِ جاں کو جُھلسنے والے اوپگلے کیا سوچ کے تو نے جیون کی بازی ہاری ہے وہ پاس آ رہا تھا کہ میں دُور ہٹ گیا سوادِ شب میں ستارے مجھے قبول نہیں خامشی میں پیام ہوتے ہیں جس دم پانی سر سے گزرا آپ کہیں کھو جاؤ گے یہ بھی سُن لو حق کی آخر جیت ہی ہو گی، ہار نہیں جس آدمی کے دوش پہ اپنی صلیب ہے وہ لوگ جن کے سینے میں اک گھاؤ بھی نہیں زخموں کو اب گِنوں گا میں بستر پہ لیٹ کے ہر سُو کھڑی تھی پانی کی دیوار، یاد ہے چراغ بن کے تری رہ گزر میں جلتے ہیں دیوانے شہرِ سرو و سَمن چھوڑ آئے ہیں لہُو میں رنگ دیا آج اسے بَبُولوں نے نکہتِ گل کی شان سے نکلا صبا بھی پُوچھنے آئی مزاج کانٹوں کا جو کچھ تھا دل میں ، آگیا باہر، کہے بغیر نغموں کی خیرات نہ بانٹو، جنم جنم کے بہروں میں آؤ کاغذ کی ناؤ تیرائیں اپنا سایہ ہی جا بہ جا دیکھا اُبھریں گے کیا کہ ڈُوبے ہیں سنگِ گراں کے ساتھ رہِ حرم نہ سہی یہ تری گلی بھی نہیں مجھ کو ملا جَہاں سے یہ انعامِ آگہی تیرگی کے دَشت میں روشنی کی جھیل ہے لے اُڑی جانے کہاں صر صرِ حالات ہمیں یہ شیشے کی عمارت پتھروں کے نام ہو جائے بن گئے پربت روئی کے گالے، بھرگئے خون سے تال خدا گواہ کہ برسات ہو گئی ہو گی ٹُوٹ جاتے ہیں سہانے خواب آدھی رات کو یہ جانیے کہ ہے وہی پتّھر کا آدمی کیا لکھیے سرِ دامنِ شب، سوچ رہے ہیں وہ پاس آ تو رہا تھا مگر ٹھہر بھی گیا پھر پُھوٹتی ہے سرخ کلی شاخِ زرد سے کہ میں تو اپنے ہی صحرا کے پار جا نہ سکا اِستعارے ہیں ماہ و انجم کے زخمِ جگر و داغِ جبیں میرے لیے ہے چلے تو آئے ہو تجدیدِ دوستی کے لیے ذرا زحمت تو ہو گی رازدارو! تم ہی آجاؤ شامل ہے انجمن میں ، مگر بولتا نہیں کہ اس نگر میں بجھی مشعلوں کی باس تو ہے Rate this:اسے شیئر کریں:Twitterفیس بکاسے پسند کریں:پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔