شکیب جلالی کی غزلیں فرد فرد غیر مردّف رات تو کٹ گئی درد کی سیج پر کسی کے ہاتھ نہ آئی مگر گلاب کی باس ہائے انسان کی انگڑائی کا خم قریہ قریہ بھٹک رہا ہے جنوں مہکی ہوئی وہ چادرِ گل بار کیا ہوئی پتھر کے پیرہن سے سراپا نکالیے ا کاش میں پیڑوں کا سایہ ہوتا میں بھی کس امتحان سے نکلا وہ رینگنے لگی کشتی وہ بادبان کھلا قربِ منزل کے لئے مر جانا پھانکتی ہے کہاں کی گرد ہَوا رہتا ہے اپنے نور میں سورج چھپا ہوا آگ جب دل میں سلگتی تھی، دھواں کیوں نہ ہوا جاری رہے گلشن میں بیاں موسمِ گل کا میرا سایہ ہے جو دیوار پہ جم جائے گا چاند ڈوبا ہے تو سورج بھی ابھر آئے گا مگر وہ پھول سا چہرہ نظر نہ آتا تھا ہرا بھرا بدن اپنا درخت ایسا تھا پیروں میں زنجیریں دالیں ہاتھوں میں کشکول دیا دریا سے کوئی شخص تو پیاسا پلٹ گیا ت اپنے حالات سے مجبور ہیں دوست میں اس گلی میں اکیلا تھا اور سائے بہت ح ہر شے گزشتنی ہے مہ و سال کی طرح ر زخم کھلتے ہیں ترے گاؤں سے دور بہتر ہے خال ڈالیے ایسی اڑان پر دوستو پانی کبھی رکتا نہیں ڈھلوان پر میری آنکھوں میں سجا ہے لب و رخسار کا شہر غ کیوں شام ہی سے بجھ گئے محفل کے سب چراغ م کلیوں کو نہال کر گئے ہم و کچھ اس کا بھی سدِّ باب یارو مرجھا گئے کھِل کے پھول یارو تم اپنے خون جگر سے کبھی وضو تو کرو بھولا ہوا تھا دیر سے میں اپنے آپ کو نہیں ہے کوئی بھی اپنا مزاج داں لوگو اگر ہو اہلِ نگاہ یارو، چٹان کے آر پار دیکھو ک میری منزل میں نہیں رات کے آثار اب تک گ دیوار و در پہ دیکھنا خونِ جگر کا رنگ ں پیش آتے ہیں رعونت سے جفا کار یہاں موج در موج ہیں سو رنگ کے منجدھار یہاں کچھ نہیں ہے مگر اس گھر کا مقدّر یادیں کیا کیا نہ عکس تیر رہے تھے سراب میں مرجھا کے آ گرا ہوں مگر سرد گھاس میں کبھی چراغ بھی چلتا ہے اس حویلی میں لے اڑی جانے کہاں صرصرِ حالات ہمیں اک کارگہِ شیشہ گراں ہیں تری آنکھیں کسی کی یاد کے جگنو دھواں اگلتے ہیں ہم گلستاں میں کب سمائے ہیں لوگ گرویدہ ہوتے جاتے ہیں جو کناروں میں سمٹ جائے وہ دریا ہی نہیں ہم زندگی کے جاننے والے ہوئے نہیں ھ صحرا میں لوگ آئے ہیں دیوار و در کے ساتھ سورج ہوں، میرا رنگ مگر دن ڈھلے بھی دیکھ ی گماں گزرتا ہے یہ شخص دوسرا ہے کوئی اونچی ہوں فصیلیں تو ہوا تک نہیں آتی یہ بستیوں کی فضا کیوں دھواں اگلنے لگی پستی سے ہم کنار ملے کوہسار بھی؟ ے یہ سناٹا اگر حد سے بڑھے کہرام ہو جائے دل کا کنول بجھا تو شہر تیرہ و تار ہو گئے خیمۂِ گل کے پاس ہی دجلۂِ خوں بھی چاہیئے ہم بھی سفرِ جاں کا ارادہ نہیں رکھتے جلتے ہوئے چراغ تہِ آب دیکھتے مجھ پہ مائل بہ کرم ہے تو مجھے دریا دے جتنے اس پیڑ کے پھل تھے ، پسِ دیوار گرے دامن بچا کے گزرو یادوں کی رہگزر سے میں جو ڈوبا تو نہ ابھروں گا کبھی ساگر سے کیا کیا نہ رنگ بھر دئیے افسوس شام نے بدل رہا ہے جنوں زاویئے اڑانوں کے زخموں کو اب گنوں گا میں بستر پہ لیٹ کے اب تو اپنے در و بام بھی جانتے ہیں پرایا مجھے اپنے ہی اک خیال کا پیکر لگا مجھے مری طرح سے اکیلا دکھائی دیتا ہے بقدرِ ظرف ہر اک آدمی سمندر ہے رونق جہاں کی انجمن آرائیوں سے ہے Rate this:اسے شیئر کریں:Click to share on Twitter (Opens in new window)Click to share on Facebook (Opens in new window)اسے پسند کریں:پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
شوق
پسند کریںپسند کریں