- رنگ رخسار میں سمٹ آیا
- صرف افسانے تھے ممکن اور محال
- آگ کی طرح اپنی آنچ میں گم
- ان کے سانچہ میں نہ ڈھلو
- اس طرح آج اُن کی یاد آئی
- اک ذرا سا نہ ان میں بل آیا
- خیر یہ راز آج کھول دیا
- دور ہو کر تجھے تلاش کیا
- توڑ لو پھول پھول چھوڑو مت
- متاعِ جاں ہیں ترے قول اور قسم کی طرح
- پھر یہی جنس کیوں نہ تولیں ہم
- جان و دل کے سارے رشتے توڑ دو
- اپنے ہی زور میں کمزور ہوئی جاتی ہو
- میں تو ہر وقت ہی مایوسِ کرم رہتا ہوں
- ناز سے کام کیوں نہیں لیتیں
- تم نے سانچے میں جنوں کے ڈھال دیں
- تم نے سانچے میں جنوں کے ڈھال دیں
- تھا وہی شخص میرے پہلو میں
- ذات میں اپنی تھا ادھورا میں
- اک قدم بھی نہیں بڑھوں گا میں
- جانے کس کس کے لیے پیغام ہیں
- میری تنہائی میں خوابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
- تھا بس اک نارسائی کا رشتہ
- لباسِ مفلسی میں کتنی بے قیمت نظر آتی
- میں خود اپنا سوگ نشیں ہوں گنگاجی اور جمنا جی
- اپنی ہٹ پوری کر کے چھوڑو گی
- جز حریفان ستم کس کو پکارا جائے
- کچھ بھی ہو پر اب حد ادب میں رہا نہ جائے
- کیا عجب تھا کہ کوئی اور تماشہ کرتے
- مجھ پہ یہ قہر ٹوٹ جانے دے
- پہلے اک سایہ سا نکل کے گھر سے باہر آتا ہے
- وہ برسوں بعد جب مجھ سے مِلا ہے
- دردِ غربت کا ساتھ دیتا ہے
- تجھ سے ملنے کی آرزو کی ہے