موجِ خیال ۔ باصر سلطان کاظمی باصر سلطان کاظمی انتساب دیباچہ جنہوں نے روشنی پائی مِرے پیمبرؐ سے چھپتی پھرتی ہے صبا پھولوں میں سوتے سوتے آنکھ ملی پھر وہ رات ہے کہ دیا بھی جلا نہیں سکتا یہ وہ جہاں ہے جہاں قیدِ صبح و شام نہیں لیکن وہ بے کلی جو اِدھر ہے اُدھر نہیں جو ہو رہا ہے کچھ اس پر بھی تم نے سوچا ہے وہ چاندنی وہ گھر وہ ہوا یاد آ گئی وہی ننھے ننھے پودے تھے گھنے درخت کل کے اب مرا تجھ سے واسطا کیا ہے پھر غلط کیا تھا جو تجھ کو ہم زباں سمجھا تھا میں ایک ناسور بن چکا ہوتا جو چاہیں آپ کہتے رہیں میرے باب میں کِس کو ڈھونڈ رہا ہے تو وہ درد پھر سے جگا کر گزر گیا کوئی اگر ستارہ نہیں کوئی اشک پارا دے لب ابھی آشنائے نالہ نہیں ایک اک لمحے کی خبر رکھو تو اپنا غم کچھ کم کر لے بکھر کر رہ گئیں لہریں ہوا کی چاند خود محوِ چاندنی ہے آج چاہے گرمِ سفر رہیں دن بھر جبھی تو تیرے نہ ملنے کا کچھ ملال نہ تھا لوگ مٹی میں رُلے جاتے ہیں کیا ہیرا سے ہاتھ سے چاہے زندگی جائے موت کی جیب سے بھی زیست کا ساماں نکلا رہتی ہے مری بات بہت عرصہ دہن میں اور بھلا کیا چاہوں میں ستانے آ گئے موسم سہانے اب ہے وہی اپنا معمول دوسروں کو مِل گیا جو تھا مری تقدیر میں رہا نہ دل ہی سلامت تو کیوں رہیں آنکھیں چاند سی شکل تری مُوجبِ طغیانی ہے خوب معلوم ہیں یہ ساری خرافات اُسے دانستہ کھڑا تھا میں ذرا سا پرے ہٹ کر ورنہ ہونی تھی کہاں مجھ سے یہ خارا شکنی دل کے بجھتے ہی یہ کیا ہو گیا بینائی کو یہ انجمن ہے راز کی باتیں یہاں نہیں اظہارِ حال کرنے کا دل نے جگر کیا جینے کا اپنے پاس بہانہ یہی تو ہے اور لمبی خیال کی گھڑیاں کہیں ہُما نہ گزر جائے میرے سَر پَر سے واقف نہیں ہیں شاید اپنے بُرے بھلے سے اب تِرے جی میں جو آئے سو کر باصرؔ تمہارے یار نے اچھا نہیں کیا تیرے دل کی برف نے دیکھا نہیں ہے آفتاب بڑا مہنگا پڑا یارانۂ دل کام تھوڑا تھا گفتگو تھی بہت کچھ وہ بھی ہیں جو کہتے ہیں سَر بھی گئے تو کیا جینے کی دوا پائی اُسی زہر میں ہم نے احساس ہی رہا نہیں کچھ ہست و بُود کا ڈرتا ہوں دوسروں کے عمل دخل سے بہت ظالم کا بس چلے تو سدا رات ہی رہے ہاں مگر حیراں نہ ہو اے دل یہی ہے زندگی اب کے برف بہت پگھلی ہے خیر مناؤ شہروں کی اب شاعری کو چاہیے اک دوسرا دماغ تھی ورنہ جانے کب سے طبیعت بھری ہوئی کوئی زباں دراز کوئی بے زبان ہے جس کی نظر اُٹھے اُسے کرتے ہیں اشارے یہ ندی بعد مدت کچھ بہی تو جانتے بھی ہو مزاج اِس کا بہت قہری ہے اوروں کے تو کیا ہوں گے وہ اپنے نہیں ہوتے پوچھ مت اپنی زباں ہم نے سنبھالی کس طرح اگرچہ اب تو کسی بات کا نہیں افسوس گھر سے بے گھر بھی ہوئے اور نہ ملی منزل بھی لائے گی شاخِ بید بھی اِس باغ کی ثمر کچھ ہوائے مشکبو کچھ ہم سبُو نے کر دیا آنکھ میں نم زیادہ ہوتا ہے جیسا لکھنا چاہا ویسا لِکھا ہے اُسے پتا نہیں شاید کہ میں گیا تو گیا یہی بہتر کہ اُٹھا رکھوں ملاقات پہ بات ذرا ملال نہ ہو تُو نہ گَر کہے کچھ بھی رہ رہ کے خیال آ رہا ہے دشمنی جس کی دوستی جیسی کہتا ہے دل کہ آج نکل جا کسی طرف مِری دعا ہے کہ وہ خوش رہے جہاں بھی رہے ساتھ وہ یارِ خوش فضا بھی تھا یہ الگ بات بے سبب نہ ہوئی اُس نے اُتنا ہی مجھ کو خوار کیا مجھے بھی عشق کا سودا نہیں ہے اُس کو ہونا ہی تھا خفا سو ہوا اب آرام کریں گے کام آتے ہیں پر کسی کسی کے بے صبری سے کام لیا تو اور بھی دیر لگے گی اُن سے ہمیں جب جہاں ملاؤ اچانک مہرباں ہونے کا مطلب متفرق اشعار باصِر کاظمی کی غزل ۔ از پروفیسر مشکور حسین یاد Rate this:اسے شیئر کریں:Click to share on Twitter (Opens in new window)Click to share on Facebook (Opens in new window)اسے پسند کریں:پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔