باصر سلطان کاظمی کی تمام غزلیں ۔ ردیف وار غیر مردّف کہتے ہیں کہ آج کل ہے مندا یہ آگ تیری لگائی ہوئی ہے تو ہی بجھا تیرے دل کی برف نے دیکھا نہیں ہے آفتاب اچانک مہرباں ہونے کا مطلب حَلف اُٹھایا مگر سچ نہ کہی کوئی بات لائے گی شاخِ بید بھی اِس باغ کی ثمر دیوارِ تعصب میں کہاں ہونی تھی جنبش اب ہے وہی اپنا معمول غریبم شاعرم گوشہ نشینم نقصان ہے نقصان ہے نقصان ہے نقصان کِس کو ڈھونڈ رہا ہے تو گولیاں چل رہی ہیں تڑ تڑ تڑ آنکھیں ہی چلی گئیں ہماری دشمنی جس کی دوستی جیسی ورنہ ہونی تھی کہاں مجھ سے یہ خارا شکنی جس کی نظر اُٹھے اُسے کرتے ہیں اشارے ستانے آ گئے موسم سہانے ا ایک ناسور بن چکا ہوتا وہ رات ہے کہ دیا بھی جلا نہیں سکتا اِس میں لگ جائے گا جگر پورا موت کی جیب سے بھی زیست کا ساماں نکلا اُس کو ہونا ہی تھا خفا سو ہوا آنا تو خوب ہے ترا پر گاہ گاہ کا اُنہیں بہانہ کوئی چاہیے لڑائی کا احساس ہی رہا نہیں کچھ ہست و بُود کا مرے اعمال کا سارا نتیجہ سامنے تھا جبھی تو تیرے نہ ملنے کا کچھ ملال نہ تھا ساتھ وہ یارِ خوش فضا بھی تھا کچھ ہوائے مشکبو کچھ ہم سبُو نے کر دیا اظہارِ حال کرنے کا دل نے جگر کیا اُس نے اُتنا ہی مجھ کو خوار کیا کچھ وہ بھی ہیں جو کہتے ہیں سَر بھی گئے تو کیا ہمیں تو اپنے ہی افکار نے ہلاک کیا باصرؔ تمہارے یار نے اچھا نہیں کیا اُسے پتا نہیں شاید کہ میں گیا تو گیا ب ٹھیک رکھتے ہیں جو حساب کتاب ہوتے نہ یوں ہمارے جواں دربدر خراب ت یہی بہتر کہ اُٹھا رکھوں ملاقات پہ بات ہم ہی کریں گے اُن سے کسی روز جا کے بات ہے دستورِ زمانہ بادشاہت کام تھوڑا تھا گفتگو تھی بہت ڈرتا ہوں دوسروں کے عمل دخل سے بہت دوستو آگے چڑھائی ہے بہت لگتا ہے کہ اُس کا تو ہے بس کام شکایت ٹ کیا نہ اُس نے مرا انتطار ایک منٹ ج چاند خود محوِ چاندنی ہے آج چ اب چلے دورِ جام آٹھ سے پانچ ح پوچھ مت اپنی زباں ہم نے سنبھالی کس طرح آرام بھی مِلا ہمیں آزار کی طرح ر فرصت اگر ملی تو ہوئی کاہلی کی نذر دانستہ کھڑا تھا میں ذرا سا پرے ہٹ کر اب تِرے جی میں جو آئے سو کر چاہے گرمِ سفر رہیں دن بھر سوتے سوتے آنکھ ملی پھر گھر کا ہر فرد چل دیا باہر قفس میں ہوتے ہیں آزاد گلستاں میں اسیر یا اُن سے کوئی بات ہو جھگڑا کیے بغیر احسان مانتے ہیں تمہارا پیے بغیر اے صاحبِ فن اتار تصویر س اگرچہ اب تو کسی بات کا نہیں افسوس ش یہ دل کرے گا کسی دن کوئی بڑی لغزش غ اب شاعری کو چاہیے اک دوسرا دماغ کہا انہوں نے کہ ہو تم تو کام سے فارغ ف کہتا ہے دل کہ آج نکل جا کسی طرف شاطِر ہے تو اگر تو اب چل کوئی چال مختلف ہے خزاں بھی بہار میں مصروف ک پیچھا نہ اس کے بعد بھی چھوڑیں گے دور تک سارے مرے منصوبے تھے اک بات کی حد تک کیا کہوں کیا غلط ہے کیا ہے ٹھیک گ باصِر سنوار سکتے نہیں اپنے کام لوگ کہاں کھپائیں گے اب جان فکر و فن میں لوگ اِک نگہ نے پھِردکھا دی میری خاکستر کو آگ ل بڑا مہنگا پڑا یارانۂ دل جبکہ ہر بات میں پوشیدہ ہو امکانِ غزل سہل اُس نے ہی کی مری مشکل م اُن کے کام اگر دیکھیں تو ہیں بس عام سے کام ن دیکھو جو ہوئے لوگوں کے نقصان مری جان کیا عجب نکلے جو پانی کی جگہ خاک سے خون ں باصرؔ خرابیاں تو ہیں پھر بھی خرابیاں اور لمبی خیال کی گھڑیاں بلندیوں کے امین زینے کو ڈھونڈتا ہوں نہ مل سکیں جو کہیں سے تو خود بنا خبریں دوسروں کو مِل گیا جو تھا مری تقدیر میں رہتی ہے مری بات بہت عرصہ دہن میں جو چاہیں آپ کہتے رہیں میرے باب میں پھر غلط کیا تھا جو تجھ کو ہم زباں سمجھا تھا میں چھپتی پھرتی ہے صبا پھولوں میں بختِ خوابیدہ غنیمت ہے کہ بیدار ہوں میں اور بھلا کیا چاہوں میں رہا نہ دل ہی سلامت تو کیوں رہیں آنکھیں دریا بھی سَراب ہو گئے ہیں اب شہر میں کم بناتے ہیں ہم بھی کب اپنا بھلا سوچتے ہیں بس یہی ایک سبب ہے کہ جو کم لکھتے ہیں لب ابھی آشنائے نالہ نہیں یہ انجمن ہے راز کی باتیں یہاں نہیں لیکن وہ بے کلی جو اِدھر ہے اُدھر نہیں یہ وہ جہاں ہے جہاں قیدِ صبح و شام نہیں کھو جائیں گے تلاش میں اُس کی ہمیں کہیں و اُن سے ہمیں جب جہاں ملاؤ یہ ندی بعد مدت کچھ بہی تو دل کے بجھتے ہی یہ کیا ہو گیا بینائی کو ایک اک لمحے کی خبر رکھو پھول کو کھِلنے سے مطلب ہے چمن کوئی بھی ہو ھ اِس میں جاتا نہیں تمہارا کُچھ کچھ یاد رہا نہیں رہا کچھ ہ زیادہ رہ نہیں سکتا کوئی کسی کی جگہ ی بہت دوستوں نے بھلائی برائی دکھائی وہ درد پھر سے جگا کر گزر گیا کوئی تھی ورنہ جانے کب سے طبیعت بھری ہوئی یہ الگ بات بے سبب نہ ہوئی وہ چاندنی وہ گھر وہ ہوا یاد آ گئی جس قیمت پر چاہیے ہم کو اُس قیمت پہ نہیں ملتی اوپر سے ہو گئی ہے یہ تجھ بن اجاڑ سی اب تھوڑی سی پِلا کافی روزی ہے تیرے رزق میں اس کے نصیب کی بکھر کر رہ گئیں لہریں ہوا کی اب کے برف بہت پگھلی ہے خیر مناؤ شہروں کی سن کر نہ رہ سکے ہم للکار قافیے کی بے صبری سے کام لیا تو اور بھی دیر لگے گی ہاں مگر حیراں نہ ہو اے دل یہی ہے زندگی گھر سے بے گھر بھی ہوئے اور نہ ملی منزل بھی یہاں بھی دل جلے گا اور وہاں بھی ذرا ملال نہ ہو تُو نہ گَر کہے کچھ بھی ے ہاتھ سے چاہے زندگی جائے خون جتنا بھی رگوں میں ہو وہ ایندھن بن جائے گر مے پہ ہے پابندی کچھ اُس کا بدل آئے اظہار کچھ ہوا بھی تو ابہام رہ گئے اوروں کے تو کیا ہوں گے وہ اپنے نہیں ہوتے اگر ستارہ نہیں کوئی اشک پارا دے کہیں ہُما نہ گزر جائے میرے سَر پَر سے لوگ مٹی میں رُلے جاتے ہیں کیا ہیرا سے وہ اُدھر آرام سے ہیں ہم اِدھر آرام سے واقف نہیں ہیں شاید اپنے بُرے بھلے سے وہ چہرے سے بہت معصوم ہے عیّار دل سے خوب معلوم ہیں یہ ساری خرافات اُسے تو اپنا غم کچھ کم کر لے جینے کی دوا پائی اُسی زہر میں ہم نے وہی ننھے ننھے پودے تھے گھنے درخت کل کے کام آتے ہیں پر کسی کسی کے میدان میں طِفل سے ڈریں گے اپنی بات کرو گے اب آرام کریں گے کسی گنتی کسی شمار میں تھے جو میری غزل سرائی کے تھے ساقی شراب چھوڑ کے دیکھا کیا مجھے رہ رہ کے خیال آ رہا ہے چاند سی شکل تری مُوجبِ طغیانی ہے جانتے بھی ہو مزاج اِس کا بہت قہری ہے جو ہو رہا ہے کچھ اس پر بھی تم نے سوچا ہے کوئی زباں دراز کوئی بے زبان ہے دل و نظر کے لیے اِس میں کچھ افادہ ہے وہ سنہری زمانہ ہوتا ہے آنکھ میں نم زیادہ ہوتا ہے جیسا لکھنا چاہا ویسا لِکھا ہے اب مرا تجھ سے واسطا کیا ہے میرے نالوں کو ہواؤں کا سہارا کم ہے جینے کا اپنے پاس بہانہ یہی تو ہے مجھے بھی عشق کا سودا نہیں ہے اور مجھے تجھ سے ایک کام بھی ہے ظالم کا بس چلے تو سدا رات ہی رہے مِری دعا ہے کہ وہ خوش رہے جہاں بھی رہے آ گئے اِس دیس میں اور دھوپ کو ترسا کیے Rate this:اسے شیئر کریں:Click to share on Twitter (Opens in new window)Click to share on Facebook (Opens in new window)اسے پسند کریں:پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔