اذیّت افتخار فلک مِرے رقیبوں کو ڈھونڈ لاؤ ، نئے خُداؤ ہوا کا ہاتھ بٹاتا ہے کھا نہیں جاتا یہ عشق چاک گھماتے ہوئے نہیں ڈرتا گونگا بہرا خالی کمرا حیراں ہوئے بغیر اِسے مت عبورنا اچّھا نہیں ہے خواب کا منظر رکھا ہوا پھر اُس کے بعد پرندے نے گھر بنایا تھا میں پتھر کے پان بنانے والا تھا میں اُسے بےفائدہ چکھتا رہا ذکر میرا شاعروں میں آ گیا سمجھ لو اضطراب سے نکل گیا میرا مطلب ہے جھوٹا خدا بچ گیا فوج کا سالار پاؤں پڑ گیا سخی! محبت زدہ عقیدہ تری محبت پلکیں بھگو رہے تھے مرے سامنے درخت ہم سے ہو گا نہیں یہ سِتم ، معذرت جسے ضروری نہیں ہے کوئی اداے حیرت اے مرے دِل رُبا! عشق کی بات کر کروں گا داستاں کوئی نئی رقم، برادرم عالمِ غیب سے ہوتا ہے اشارہ مجھ کو کہ دشتِ سود و زیاں سے آگے اُتار مجھ کو آخ تھو! اس قدر بےبسی! آخ تھو آپ کو نوکری مُبارک ہو دل ابھی پائمال مت کریو یا کہیں بیٹھ کے رو لوں تو ہرا ہو جاؤں میں اک پاؤں پہ پورا ناچتا ہوں سکوتِ شب کو کھٹک رہا ہوں، بہت برا ہوں میں ست رنگی پھول بنانے والا ہوں اپنے چاند ستاروں میں آ بیٹھا ہوں کہ کارِبےکار و بےقراری میں لگ گیا ہوں دشت میں عشق کی ہچکیاں رہ گئیں ہم جو ناچار خودکشی کرلیں ایسی غفلت نہیں کروں گا میں یعنی روشن مزید ہوتے ہیں جب گونگے اشجار ٹھکانے لگتے ہیں صاحبا! خاک نشینوں کو فراغت کیسی زہر کیسا لگا، ہو چکی خودکشی جڑیں کاٹتے ہیں وبال آسمانی اے مرے رہ نما! پِلا پانی فرازِ آدمیّت کا ستارا ہاتھ لگ جائے چور عہدِ سامری کے جل پری تک آ گئے مُسکرا کر ہمیں مِلا کیجے جہاں ، جہاں ، جہاں کھُلا، صراطِ مُستقیم سے مرے کمرے میں گہری خامشی ہے اور عقل و آگہی پہ بار ہے چِراغِ شب طمانچے کھا رہا ہے مرے قد کو گھٹایا جا رہا ہے یہاں جتنی سہولت ہے اذیّت ہے زندگی دشواریوں میں محو ہے ہوا، آنکھیں دِکھانے آ گئی ہے سُخن کی ہندہ ، مِرا کلیجا چبا رہی ہے صاحب! نوادرات کی شکلیں دکھائیے دشت دشت گھومیے آبلے شکاریے Rate this:اسے شیئر کریں:Click to share on Twitter (Opens in new window)Click to share on Facebook (Opens in new window)اسے پسند کریں:پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔