میر تقی میر ۔ کلام بالحاظ ردیف غیر مردّف مستی میں میری تھا یاں اک شور اور شرابا چٹکیوں میں رقیب اڑ جاتا پتھر تلے کا ہاتھ ہی اپنا نکالتا ہرچند چاہتا ہوں پر جی نہیں سنبھلتا یہ ویراں آشیانے دیکھنے کو ایک میں چھوٹا پھر صبر بن اور کیا ہے چارا مستی کے ذوق میں ہیں آنکھیں بہت ہی خیرا پر بے مزہ ہے مزاج میرا بھاری پتھر تھا چوم کر چھوڑا تب آنکھوں تلے میری اترتا ہے لہو سا رحمت خدا کی تجھ کو اے ابر زور برسا الغرض اس پہ دانت ہے سب کا گویا چراغ وقف ہوں میں اس دیار کا پاس ہمارا گو نہ کرو تم پاس ہی اب سے رہیے گا اس تشنہ کام نے تو پانی بھی پھر نہ مانگا کھینچے ایذا ہمیشہ کس کی بلا کیا آب حیواں کو پانی سے پتلا نرگس کا جس سے رنگ شکستہ بھی اڑ چلا ہو گئی عید تو گلے نہ ملا کب خضر و مسیحا نے مرنے کا مزہ جانا مہکتا ہو نپٹ جو پھول سی دارو سے میخانا گو کہ مرے ہی خون کی دست گرفتہ ہو حنا ملے گا نیند بھر تب مجھ کو سونا کہ مٹی کوڑے کا اب ہے بچھونا کی دوستی کہ یارو اک روگ میں بساہا دس دن رہے جہان میں ہم سو رہا دہا دانت تمھارے منھ میں کے ہیں اس مغرور نے یوں نہ کہا گل منھ نہ کھولتا تھا بلبل نہ بولتا تھا کوہکن نے بھی سر کو پھوڑا تھا نظر میں اس کی میں تو بھی نہ آیا ہوکے عاشق بہت میں پچھتایا یہ کون شگوفہ سا چمن زار میں لایا اس آگ نے بھڑک کر دربست گھر جلایا کبریت نمط جن نے لیا مجھ کو جلایا اس دل نے ہم کو آخر یوں خاک میں ملایا صنم خانہ ہی یاں اے شیخ تونے کیوں نہ بنوایا یعنی جدائی کا ہم صدمہ بڑا اٹھایا سو بار آنکھیں کھولیں بالیں سے سر اٹھایا صحرا میں رفتہ رفتہ کانٹوں نے سر اٹھایا پیر فقیر اس بے دنداں کو ان نے دنداں مزد دیا اس دو روزہ زیست میں ہم پر بھی کیا کیا ہو گیا بے صرفہ کرے صرف نہ کیوں دیدئہ تر آب تو کون قمریوں کے چواتا دہن میں آب دیکھ اس کو بھر بھر آوے ہے سب کے دہن میں آب رخسار تیرے پیارے ہیں آفتاب مہتاب میں اٹھ گیا ولے نہ اٹھا بیچ سے حجاب ایک گردش میں تری چشم سیہ کے سب خراب ساتھ میرے دل گڑا تو آچکا مرنے کا خواب آنا ہوا کہاں سے کہیے فقیرصاحب عرق شرم میں گیا ہے ڈوب اس ستمگر کے ہم ہیں شہر غریب ہوئے آدم کو بھی بہشت نصیب شور و شر سے میرے اک فتنہ رہا کرتا تھا رات تو بھی مری دعا سے ملتی نہیں اجابت اجل تو ہے دل کے مرض کی بدایت سنا نہیں ہے مگر یہ کہ جوگی کس کے میت کسو کی زلف ڈھونڈی مو بہ مو کا کل کو سب لٹ لٹ دل لیں ہیں یوں کہ ہرگز ہوتی نہیں ہے آہٹ کیا تازہ کوئی ان کی نکلی بہار میں شاخ ریزش سے اس کی تختہ ہے سینے کا سنگ سرخ ان دنوں کچھ ہے مہرباں وہ شوخ زبان سرخ سرِسبز دیتی ہے برباد رکھ کے تیشہ کہے ہے یا استاد مجنوں کہنے لگا کہ ہاں استاد ہاتھ نہ رکھوں کیوں دل پر میں رنج و بلا ہے قیامت درد ہاتھ لگتے دل کے ہو جاتا ہوں کچھ میں زرد زرد پھول میری خاک سے نکلیں گے بھی تو زرد زرد یا بگولا جو کوئی سر کھینچے ہے صحرا نورد خاک اڑاتے کہاں تک پھریے چہرہ سب ہے گردآلود نان و نمک ہے داغ کا بھی ایک شے لذیذ کہیو ہم صحرانوردوں کا تمامی حال زار اے انتظار تجھ کو کسی کا ہو انتظار ہوئے پانی پانی در شاہوار کام آئے فراق میں اے یار اے آہ پھر اثر تو ہے برچھی کی چوٹ پر بگلا شکار ہووے تو لگتے ہیں ہاتھ پر کعبہ و دیر کے ایوانوں کے گرے پڑے ہیں در کے در رہ گیا ہوں چراغ سا بجھ کر ضبط گریہ سے پڑ گئے ناسور پلکوں کی صف سے بھیڑیں گئیں منھ کو موڑ موڑ ٹھہری ہے جان سی بھی شے کیا چیز اس ملک میں ہماری ہے یہ چشم تر ہی بس تلوار کا سا گھاؤ ہے جبہے کا ہر خراش کس کا ہے راز بحر میں یارب کہ یہ ہیں جوش دل کے دل ہی میں کھپائے اپنے جوش بیکراں دریاے غم کے ہیں بلا جوش و خروش کہتے ہیں دیوار بھی رکھے ہے گوش اک مصیبت ہے میرے تیں درپیش کیوں نہ القاص لایحب القاص رقص بسمل تم سنو ہو جیسا رقص ان ہی رنگوں ہوتا ہے اس صید طرفہ دل کا رقص سو ہی کھینچی مجھ پہ گھر میں پیش قبض خودنما خودرائے و خودسر خودغرض چشم نم دیدہ سے عاشق کی سدا جاری ہے فیض خانقہ میں کرتے ہیں صوفی سماع واہ وا رے آتش جاں سوز پھر تاثیر شمع تلووں تک وہ داغ گیا ہے سب مجھ کو کھا جیسے شمع وہ سراپا دیکھ کر پردے میں جل جاتی ہے شمع اس بھبھوکے سے کو بیٹھا دیکھ جل جاتی ہے شمع پانی پانی شرم مفرط سے ہوئی جاتی ہے شمع جائیں گے گر وفا کرے گا دماغ دریغ و درد و صد افسوس صد ہزار دریغ راستی یہ ہے کہ وعدے ہیں تمھارے سب خلاف گل سے چمن بھرے ہوں نہ ہو تو ہزار حیف بھرے ہیں پھولوں سے جیب و کنار لیکن حیف ہے یار بھی ہمارا قیامت ستم ظریف ہیں فن عشق کے بھی مشکل بہت دقائق دشت دشت اب کے ہے گل تریاک جاتی نہیں ہے اشک کی رخسار کے ڈھلک تب سے لٹتی ہے ہند چاروں دانگ ہیں پریشاں چمن میں کچھ پر و بال آزردہ دل ستم زدہ دل بے قرار دل سارے گلبن تھے تو کہے بے اصل وہ بھی ہے گا گلاب کا سا پھول گئے گذرے خضر علیہ السلام ترحم کہ مت کر ستم پر ستم واں گئے کیا ہو کچھ نہیں معلوم دل اٹھاتا نہیں اپنا کہ گرفتار ہیں ہم رگ ابر تھا تارتارگریباں کہ گڑے ہوئے پھر اکھڑیں دل چاک دردمنداں کیوں کے ہیں گے اس رستے میں ہم سے آہ گراں باراں نہ ہوا کہ صبح ہووے شب تیرہ روزگاراں پھر زمانے میں کہاں تم ہم کہاں ہے سیر مفت میر تجھے پھر جہاں کہاں کوئی ہم سے سیکھے وفاداریاں جاتی ہیں لامکاں کو دل شب کی زاریاں مار رکھا سو ان نے مجھ کو کس ظالم سے جا لڑیاں نہ چوب گل نے دم مارا نہ چھڑیاں بید کی ہلیاں اس بے نشاں کی ایسی ہیں چندیں نشانیاں تم بھی تو ایک رات سنو یہ کہانیاں طالعوں نے صبح کر دکھلائیاں میں ترے کان کھول رکھتا ہوں مجنوں کی محنتیں سب میں خاک میں ملاؤں فریاد کریں کس سے کہاں جاکے پکاریں جینے کی اپنے ہم بھی کوئی طرح نکالیں آنکھیں نیچی کر گیا گل باغ میں مدت ہوئی اٹھا دیں تم نے یہ ساری رسمیں قیامت کو مگر عرصے میں آویں تم سے کتنے ہماری جیب میں ہیں بے خود ہوجاتے ہیں ہم تو دیر بخود پھر آتے ہیں اندھیری رات ہے برسات ہے جگنو چمکتے ہیں یمنی کو وے نام رکھتے ہیں یعنی تمھاری ہم سے وے آنکھیں نہیں رہیں پر ساکنوں میں واں کے کوئی آدمی نہیں پھوٹی سہتے ہیں آنجی سہتے نہیں خدا نُہ نہ دے ان کو جو سر کھجائیں اس چرخ نے کیاں ہیں ہم سے بہت ادائیں جو نہ مانو تو انتہا لے تو مجروح دل کو میرے کانٹوں میں مت گھسیٹو مت کھائیو غم اپنا اپنا نہ لہو پیجو گری ہو کے بے ہوش مشاطہ یک سو خانہ بہ خانہ در بہ در شہر بہ شہر کو بہ کو دو باتیں گر لکھوں میں دل کو ٹک اک لگالو کب ہے ویسی مواجہہ کرلو ایسا تو رو کہ رونے پہ تیرے ہنسی نہ ہو برات عاشقاں بر شاخ آہو میر کے یار کی طرح دیکھو جیسے مصاحب ابر کی ہوتی ہے کوئی باؤ کاہے کو یوں کھڑے ہو وحشی سے بیٹھ جاؤ بولو نہ بولو بیٹھو نہ بیٹھو کھڑے کھڑے ٹک ہوجاؤ ہم سینہ خستہ لوگوں سے بس آنکھ مت لگاؤ سانپ سا چھاتی پہ پھر جاتا ہے آہ یار تک پھر تو کس قدر ہے راہ ناحق ہماری جان لی اچھے ہو واہ واہ زلف اس کی ہے ایک مار سیاہ دلیل اس کی نمایاں ہے مری آنکھیں ہیں خوں بستہ مانند برق ہیں یاں وے لوگ جستہ جستہ کیا شوخ طبع ہے وہ پرکار سادہ سادہ گویا کہ ہیں یہ لڑکے پیر زمانہ دیدہ آب اس کے پوست میں ہے جوں میوئہ رسیدہ اور ہر پارہ اس کا آوارہ کیا پوچھتے ہو الحمدللہ آخر کو گرو رکھا سجادئہ محرابی ہجراں کا غم تھا تہ میں سختی سے جان ٹوٹی کہو کس طرح نئیں صبا چوربادی کر اے طپش جگر کی اب تو ہی آبیاری دزد غمزوں کی ویسی عیاری کیجیے کیا میر صاحب بندگی بے چارگی کس مرتبے میں ہو گی سینوں کی خستہ حالی لے یار مرے سلمہ اللہ تعالیٰ ابرو تو یک طرف پلک اس کی نہیں ہلی عید آئی یاں ہمارے بر میں جامہ ماتمی اے عمر گذشتہ میں تری قدر نہ جانی اب کب گئی اٹھائی ہے زور ناتوانی کہاں ہم کہاں تم کہاں پھر جوانی سنی گرچہ جاتی نہیں یہ کہانی ہووے پیوند زمیں یہ رفتنی کہاں رحمت حق کہاں بے گناہی لکھتا ہوں تو پھرے ہے کتابت بہی بہی یہ نہ منھ دیکھے کی سی میں نے کہی اسی کی باغ میں ہوا دیکھی یہ بات اک بے خودی میں منھ پر آئی جنگل میں نکل آئے کچھ واں بھی نہ بن آئی اللہ رے اثر سب کے تئیں رفتگی آئی اے مری موت تو بھلی آئی طرف ہے مجھ سے اب ساری خدائی آسماں سے زمین نپوائی درویشی و کم پائی بے صبری و تنہائی گو مثل ہو آنکھ پھوٹی پیر گئی سر پر مرے کھڑی ہو شب شمع زور روئی پھر عمر چاہیے گی اس کو بحال آتے اچھے ہوتے نہیں جگر خستے اک ایک کو نہیں پھر غیرت سے دیکھ سکتے آنکھیں پھر جائیں گی اب صبح کے ہوتے ہوتے نام خدا ہوا ہے اب وہ جوان بارے موقوف رحم پر ہیں دشوار کام سارے ہاتھ کانوں پہ رکھ گئے سارے ٹک حسن کی طرف ہو کیا کیا جوان مارے مرغان باغ سارے گویا ہیں اس کے مارے ہوا ہوں زعفراں کا کھیت تیرے عشق میں پیارے حیرت سے ہم تو چپ ہیں کچھ تم بھی بولو پیارے ظاہر تو پاس بیٹھے ہیں پر ہیں بہت پرے کیسے ہی ہوں گے ہم گئے گذرے پودے چمن میں پھولوں سے دیکھے بھرے بھرے ابر کیا کیا اٹھے ہنگامے سے کیا کیا برسے کیا کیا نہ ابر آ کر یاں زور زور برسے نگاہیں اٹھ گئیں طوفان پر سے اڑ گئے آئینے کے توتے سے افسوس ہے کہ آ کر یوں مینھ ٹک نہ برسے کیا تمھیں یاں سے چلے جاتے ہو ہم بھی جاچکے اس کی گلی کا ساکن ہرگز ادھر نہ جھانکے پر اس روش کو تیری یہ لوگ کیا کہیں گے گلوں نے جن کی خاطر خرقے ڈالے آخر ہیں تری آنکھوں کے ہم دیکھنے والے عید سی ہوجائے اپنے ہاں لگے جو تو گلے رہتے ہیں ان کے گلے لگنے کے برسوں سے گلے ایسے گئے ایام بہاراں کہ نہ جانے کر نہیں بنتی کسو سے جو بنے تو دل کہ قفل سا بستہ ہے کیسا کھل جاوے منھ پھیرے وہ تو ہم کو پھر کون منھ لگاوے ولے دل شرط ہے جو تاب لاوے جیسے چراغ کوئی مہتاب میں جلاوے اے آفتاب تیرا منھ تو طباق سا ہے دل رفتہ رفتہ غم میں آدھا نہیں رہا ہے نوگل جیسے جلوہ کرے اس رشک بہار کو دیکھا ہے اس پہ گویا کہ قرض کھایا ہے جو ہو شمار دم میں اس کی امید کیا ہے اول عشق ہی میں آخر ہے لکھا ہے گر کہیں سہوالقلم ہے وہ شگفتہ ہے یہ گرفتہ ہے راہ کی بات کھوئے دیتی ہے دریا کے بھی ہونٹ جا سلے ہے اب آئے تم تو فائدہ ہم ہی نہیں رہے ہم کو دیکھو کہ لگے چلنے تو جاتے ہی رہے ان ساحروں نے ایسے منھ عاشقوں کے باندھے شاعروں نے بھی فکر کر دیکھے آوارگی تو دیکھو کیدھر سے کیدھر آئے ہونٹوں پہ جان آئی پر آہ وے نہ آئے بے عبرتوں نے لے کر خاک ان کی گھر بنائے یکسر ان نامردوں کو جو ایک ہی تک تک پا میں اٹھائے یہ صعوبت کب تلک کوئی اٹھائے شمع و چراغ بزم میں خاموش ہو گئے دور سے ایک نظر دیکھ کے جانے سے گئے دریا کا پھیر پایئے تیرا نہ پایئے کیا کیجے میری جان اگر مر نہ جایئے پیکر نازک کو تیرے کیونکے بر میں لایئے اب صبح ہونے آئی ہے اک دم تو سویئے جو گیا ہو جان سے اس کو بھی جانا کیجیے لے زمیں سے تا فلک فریاد و زاری کیجیے نالوں نے میرے ہوش جرس کے اڑا دیے بس ہے یہ ایک حرف کہ مشتاق جانیے ایک دن تہ کر بساط ناز جایا چاہیے ایسے ویرانے کے اب بسنے کو مدت چاہیے جان کے دینے کو جگر چاہیے خون دل ہی کا اب مزہ چکھیے سو طرف جب دیکھ لیجے تب ٹک اودھر دیکھیے موند لیں آنکھیں ادھر سے تم نے پیارے دیکھیے گلگشت کو جو آئیے آنکھوں پہ آئیے ا میں نے یہ غنچۂ تصویر صبا کو سونپا تو رک کے منھ تئیں کاہے کو شب جگر آتا لہو آتا ہے جب نہیں آتا تو کام مرا اچھا پردے میں چلا جاتا ٹھہراؤ سا ہو جاتا یوں جی نہ چلا جاتا پر بعد نماز اٹھ کر میخانہ چلا جاتا نکلا ہی نہ جی ورنہ کانٹا سا نکل جاتا کاشکے آہوچشم اپنا آنکھوں کو پاؤں سے مل جاتا اب تو چپ بھی رہا نہیں جاتا پھر اس پہ ظلم یہ ہے کچھ کہا نہیں جاتا کہ مجھ کو اس کی گلی کا خدا گدا کرتا چلا عشق خواری کو ممتاز کرتا یا تن آدمی میں دل نہ بنایا ہوتا قدم دو ساتھ میری نعش کے جاتا تو کیا ہوتا اس قدر حال ہمارا نہ پریشاں ہوتا کہ میں شکار زبوں ہوں جگر نہیں رکھتا جس کوچے میں وہ بت صد بدنام نہیں رکھتا کہ سنگ محتسب سے پاے خم دست سبو ٹوٹا دل کے سو ٹکڑے مرے پر سبھی نالاں یک جا نالہ مرا چمن کی دیوار تک نہ پہنچا اس شوخ کم نما کا نت انتظار کھینچا کھب گئی جی میں تیری بانکی ادا ہرگز نہ ایدھر آئیں گے خلق خدا ملک خدا پاک ہوئی کشتی عالم کی آگے کن نے دم مارا ولے اس کی نایابی نے جان مارا زلفوں کی درہمی سے برہم جہان مارا جامہ زیبوں نے غضب آگ پہ دامن مارا مہر بت دگر سے طوفان کر کے مارا اسی میں ہو گا کچھ وارا ہمارا ہے ختم اس آبلے پر سیر و سفر ہمارا غنیمت ہے جہاں میں دم ہمارا بہت عالم کرے گا غم ہمارا جز درد اب نہیں ہے پہلونشیں ہمارا مشبک کر گیا ہے تن ہمارا کیا خاک میں ملا ہے افسوس فن ہمارا افسانۂ محبت مشہور ہے ہمارا بوسہ بھی لیں تو کیا ہے ایمان ہے ہمارا خونبار میری آنکھوں سے کیا جانوں کیا گرا دل نے جگر کی اور اشارت کی یاں گرا دیکھا نہ بدگمان ہمارا بھلا پھرا مجنوں بھی اس کی موج میں مدت بہا پھرا بسان جام لیے دیدئہ پرآب پھرا سبھوں سے پاتے ہیں بیگانہ آشنا تیرا مطلق نہیں ہم سے ساز تیرا اے نقش وہم آیا کیدھر خیال تیرا پر مرے جی ہی کے خیال پڑا مجلس میں سن سپند یکایک اچھل پڑا چھوڑ لذت کے تئیں لے تو فقیری کا مزا برقع سے گر نکلا کہیں چہرہ ترا مہتاب سا آنکھیں کھلیں تری تو یہ عالم ہے خواب سا آگے اس قد کے ہے سرو باغ بے اسلوب سا سو ہو چلا ہوں پیشتر از صبح سرد سا ہوا ابر رحمت گنہگار سا کہ سحر نالہ کش ہے بلبل سا دیکھا جو خوب تو ہے دنیا عجب تماشا دیواں میں شعر گر نہیں نعت رسولؐ کا یعنی خیال سر میں ہے نعت رسولؐ کا شاید ہمیں دکھلاویں گے دیدار خدا کا سرمایۂ توکل یاں نام ہے خدا کا قدرت سے اس کی لب پر نام آوے ہے خدا کا بھروسا کیا ہے عمربے وفا کا دامن پکڑ کے رویئے یک دم سحاب کا جا چکا ہوں جہان سے کب کا جو رفتۂ محبت واقف ہے اس کے ڈھب کا پہروں چواؤ ان نے رکھا بات بات کا نکلے ہے جی ہی اس کے لیے کائنات کا ٹکڑا مرا جگر ہے کہو سنگ سخت کا رواج اس ملک میں ہے درد و داغ و رنج و کلفت کا مشتاق منھ مرا ہے اسی رنگ زرد کا عشق بھی اس کا ہے نام اک پیار کا طرف ہوا نہ کبھو ابر دیدئہ تر کا شور سا ہے تو ولیکن دور کا جس کے ہر ٹکڑے میں ہو پیوست پیکاں تیر کا خانہ خراب ہوجیو آئینہ ساز کا جو کوئی اس کو چاہے ظاہر ہے حال اس کا حیرتی ہے یہ آئینہ کس کا جیتا رہا ہے کوئی بھی بیمار عشق کا ہر بال اس کے تن پہ ہے موجب وبال کا مستجمع جمیع صفات و کمال کا کیا ذکر یاں مسیح علیہ السلام کا ہاتھ ملنا کام ہے اب عاشق بدنام کا آٹھ پہر رہتا ہے رونا اس کی دوری کے غم کا القصہ رفتہ رفتہ دشمن ہوا ہے جاں کا مجھ پہ تودہ ہوا ہے طوفاں کا تہ کر گیا مصلیٰ عزلت گزیدگاں کا ہو جو زخمی کبھو برہم زدن مژگاں کا اڑتا ہے ابھی رنگ گل باغ جہاں کا کیا حال محبت کے آزار کشیدوں کا ہوا نہ گور گڑھا ان ستم کے ماروں کا اگرچہ آسماں تک شور جاوے ہم فقیروں کا وحشت کرنا شیوہ ہے کیا اچھی آنکھوں والوں کا لوٹا مارا ہے حسن والوں کا لگے ہو خون بہت کرنے بے گناہوں کا لاگ جی کی جس سے ہو دشمن ہے اپنی جان کا دیکھا تو اور رنگ ہے سارے جہان کا کیوں رنگ پھرا سا ہے ترے سیب ذقن کا روئے نہ ہم کبھو ٹک دامن پکڑ کسو کا ہوں دوانہ ترے سگ کو کا خانہ خراب ہو جیو اس دل کی چاہ کا خاک افتادہ ہوں میں بھی اک فقیر اللہ کا ہمیشہ رہے نام اللہ کا ننگ ہے نام رہائی تری صیادی کا کل اس پہ یہیں شور ہے پھر نوحہ گری کا جگر پہ زخم ہے اس کی زباں درازی کا رہا ویسا ہی ہنگامہ مری بھی زار نالی کا جو کوئی دم ہے تو افسوس ہے جوانی کا یاددہ ہے وہ کسو چشم کی گریانی کا پھروں ہوں چور زخمی اس کی تیغ کم نگاہی کا دماغ کس کو ہے محشر کی دادخواہی کا رکھے ہے شوق اگر رحمت الٰہی کا نہ پیش آوے اگر مرحلہ جدائی کا میل دلی اس خودسر سے ہے جو پایہ ہے خدائی کا جامے کا دامن پاؤں میں الجھا ہاتھ آنچل اکلائی کا ستم شریک ترا ناز ہے زمانے کا رہ گیا دیکھ رفو چاک مرے سینے کا اک وقت میں یہ دیدہ بھی طوفان رو چکا واں کام ہی رہا تجھے یاں کام ہوچکا نہیں کیا سیل اشک اس پر بہوں گا تا بت خانہ ہر قدم اوپر سجدہ کرتا جاؤں گا یاں پھر اگر آؤں گا سید نہ کہاؤں گا تو بلبل آشیاں تیرا ہی میں پھولوں سے چھاؤں گا تیغ قاتل کو سر چڑھاؤں گا چہرے سے خونناب ملوں گا پھولوں سے گل کھاؤں گا مجنوں مجنوں لوگ کہے ہیں مجنوں کیا ہم سا ہو گا دشمن کے بھی دشمن پر ایسا نہ ہوا ہو گا مآل اپنا ترے غم میں خدا جانے کہ کیا ہو گا بکیں گے سر اور کم خریدار ہو گا تو جینا ہمیں اپنا دشوار ہو گا تہ خاک بھی خاک آرام ہو گا ہر گام پہ جس میں سر نہ ہو گا ناچار عاشقوں کو رخصت کے پان دے گا کس طرح آفتاب نکلے گا کوئی دل کا بخار نکلے گا کام اپنے وہ کیا آیا جو کام ہمارے آوے گا یا کہ نوشتہ ان ہاتھوں کا قاصد ہم تک لاوے گا درد آگیں انداز کی باتیں اکثر پڑھ پڑھ رووے گا مئے گلگوں کا شیشہ ہچکیاں لے لے کے رووے گا تو ہمسایہ کاہے کو سوتا رہے گا جیتا ہوں تو تجھی میں یہ دل لگا رہے گا دس دن جو ہے یہ مہلت سو یاں دہا رہے گا ہمیں عشق ہے تو اثر کر رہے گا ہمیں عشق ہے تو اثر کر رہے گا ایسی طپش سے دل کی کوئی جگر رہے گا وابستہ ترے مو کا پریشان رہے گا غافل نہ رہ کہ قافلہ اک بار جائے گا اے کبک پھر بحال بھی آیا نہ جائے گا جب یہ کہتا ہوں تو کہتا ہے کہ ہوں ہوجائے گا یا لوہو اشک خونی سے منھ پر بہائے گا مگر اک غم ترا اے شوخ بے کس ہوکے روئے گا ایک دن یوں ہی جی سے جایئے گا پڑھتے کسو کو سنیے گا تو دیر تلک سر دھنیے گا اندرونے میں جیسے باغ لگا کچھ درد عاشقی کا اسے بھی مزہ لگا یک رمق جی تھا بدن میں سو بھی گھبرانے لگا مجھے سیدھیاں وہ سنانے لگا سب درد ہو شدت کا اس دل ہی کو دل ڈالا اس سیہ خانے میں چراغ جلا آپڑی یہ ایسی چنگاری کہ پیراہن جلا یعنی کہ فرط شوق سے جی بھی ادھر چلا یاں شرم سے عرق میں ڈوب آفتاب نکلا موم سمجھے تھے ترے دل کو سو پتھر نکلا ماہ تمام یارو کیا ناتمام نکلا ناکام عشق تب تو عاشق کا نام نکلا جگر مرغ جان سے نکلا کہنے لگا چپکا سا ہوکر ہائے دریغ شکار اپنا ہوا وہ بے مروت بے وفا ہرگز نہ یار اپنا دل نہ اپنا ہے محبت میں نہ دلبر اپنا کیا کروں گر نہ کروں چاک گریباں اپنا تلاش جوش بہار میں کی نگار گلشن میں تھا نہ اپنا شاعری تو شعار ہے اپنا اس عشق کی وادی میں ہر نوع بسر کرنا کوئی خاک سے ہو یکساں وہی ان کو ناز کرنا شب کو القصہ عجب قصۂ جانکاہ سنا آشنا رہ برسوں جو اک دم میں ہو نا آشنا یا تو بیگانے ہی رہیے ہوجیے یا آشنا عاشق کا اپنے آخری دیدار دیکھنا تجھ پر کوئی اے کام جاں دیکھا نہ یوں مرتا ہوا تیری گلی میں لائی صبا تو بجا ہوا شکر خدا کہ حق محبت ادا ہوا چہرہ تمام زرد زر ناب سا ہوا ٹکڑا جگر کا آنکھوں سے نکلا جلا ہوا دیکھا پھر اس کو خاک میں ہم نے ملا ہوا یا روز اٹھ کے سر کو پھرایا تو کیا ہوا چھوڑا وفا کو ان نے مروت کو کیا ہوا کیا جانیے کہ میر زمانے کو کیا ہوا اس پردے کے اٹھ جانے سے اس کو ہم سے حجاب ہوا چاہ نے بدلے رنگ کئی اب جسم سراسر زرد ہوا رنگ بدن میت کے رنگوں جیتے جی ہی پہ زرد ہوا دیکھ آنکھیں وہ سرمہ گیں میں پھردنبالہ گرد ہوا اس سے کیا جانوں کیا قرار ہوا تا بہ روح الامیں شکار ہوا اک دو دن ہی میں وہ زار و زبوں خوار ہوا گل اشتیاق سے میرے گلے کا ہار ہوا سختیاں جو میں بہت کھینچیں سو دل پتھر ہوا دل نام قطرہ خون یہ ناحق تلف ہوا سوز دروں سے نامہ کباب ورق ہوا پھول غیرت سے جل کے خاک ہوا اس لب خاموش کا قائل ہوا دل کے جانے کا بڑا ماتم ہوا پھر ان دنوں میں دیدئہ خونبار نم ہوا مرنا تمام ہو نہ سکا نیم جاں ہوا دامن گل گریۂ خونیں سے سب افشاں ہوا وہ دل کہ جس پہ اپنا بھروسا تھا خوں ہوا اب کے مجھے بہار سے آگے جنوں ہوا کیسے رکتے تھے خفگی سے آخرکار جنون ہوا برسوں سے صوفیوں کا مصلیٰ تو تہ ہوا دل جو عقدہ تھا سخت وا نہ ہوا عاشقی کی تو کچھ ستم نہ ہوا میرا دل خواہ جو کچھ تھا وہ کبھو یاں نہ ہوا طپش کی یاں تئیں دل نے کہ درد شانہ ہوا جوش غم سے جی جو بولایا سو دیوانہ ہوا ظلم صریح عشق کی امداد سے ہوا رات کا بھی کیا ہی مینھ آیا تھا پر جاتا رہا آخر اب دوری میں جی جاتا رہا بے دماغی سے با خطاب رہا گردن شیشہ ہی میں دست رہا اس آستاں پہ مری خاک سے غبار رہا رونا مرا سنوگے کہ طوفان کر رہا دل کے جانے کا نہایت غم رہا مژہ نم رہیں حال درہم رہا حیرت سے آفتاب جہاں کا تہاں رہا اک دل غمخوار رکھتے تھے سو گلشن میں رہا یوناں کی طرح بستی یہ سب میں ڈبو رہا رہے جہان میں تو دیر میں رہا نہ رہا ضعف اتنا تھا کہے بات ڈھلا جاتا تھا گلابی روتی تھی واں جام ہنس ہنس کر چھلکتا تھا لب ساغر پہ منھ رکھ رکھ کے ہر شیشہ بہکتا تھا تو کہیو جب چلا ہوں میں تب اس کا جی نکلتا تھا کچھ ہمارا اسی میں وارا تھا برسوں ملے پر ہم سے صرفہ ہی سخن کا تھا ٹک رنجہ قدم کر کر مجھ تک اسے آنا تھا جیدھر ہو وہ مہ نکلا اس راہ نہ ہم کو جانا تھا اس جان کی جوکھوں کو اس وقت نہ جانا تھا پر اتنا بھی ظالم نہ رسوا ہوا تھا اشک فقط کا جھمکا آنکھوں سے لگ رہا تھا آگ لینے مگر آئے تھے یہ آنا کیا تھا لڑکا سا ان دنوں تھا اس کو شعور کیا تھا نہ جانا ان نے تو یوں بھی کہ کیا تھا مانند آئینے کے مرے گھر میں آب تھا اب جس جگہ کہ داغ ہے یاں آگے درد تھا گل سرخ اک زرد رخسار تھا کبھو درد تھا کبھو داغ تھا کبھو زخم تھا کبھو وار تھا کچھ مزاج ان دنوں مکدر تھا بالیں کی جاے ہر شب یاں سنگ زیر سر تھا خورشید میں بھی اس ہی کا ذرہ ظہور تھا اس روے دل فروز کا سب میں ظہور تھا دامن تر کا مرے دریا ہی کا سا پھیر تھا کبھو مزاج میں اس کے ہمیں تصرف تھا آج تو کشتہ کوئی کیا زینت فتراک تھا آیا شب فراق تھی یا روز جنگ تھا دنبالہ گرد چشم سیاہ غزال تھا اپنی زنجیر پا ہی کا غل تھا مجنوں کے دماغ میں خلل تھا انداز سخن کا سبب شور و فغاں تھا دل کا ہنگامہ قیامت خاک کے عالم میں تھا چلے آتے تھے چاروں اور سے پتھر جہاں میں تھا آنکھیں تو کہیں تھیں دل غم دیدہ کہیں تھا جی دل کے اضطراب سے بے تاب تھا سو تھا پر اپنے جام میں تجھ بن لہو تھا رو آشیان طائر رنگ پریدہ تھا شام سے تا صبح دم بالیں پہ سر یک جا نہ تھا کون سے درد و ستم کا یہ طرفدار نہ تھا ہر گلی شہر کی یاں کوچۂ رسوائی تھا مرغ خوش خواں عزیز کوئی تھا سینہ کوبی سخت ماتم کب سے تھا شعلۂ آہ دل گرم محبت سے اٹھا ان چشم سیاہوں نے بہتوں کو سلا رکھا طاق بلند پر اسے سب نے اٹھا رکھا حال رکھا تھا کچھ بھی ہم نے عشق نے آخر مار رکھا پیغمبر کنعاں نے دیکھا نہ کہ کیا دیکھا جیتے رہے تھے کیوں ہم جو یہ عذاب دیکھا ایک تجھ کو ہزار میں دیکھا آج دیکھا تو باغ بن دیکھا طرحیں بدل گئیں پر ان نے ادھر نہ دیکھا آیا کبھو یاں دن کو بھی یوں تو غضب آیا رام صیاد کا ہوتے ہی خدا یاد آیا دور سے دیکھتے ہی پیار آیا شکر خدا کا کریے کہاں تک عہد فراق بسر آیا اب ضبط کریں کب تک منھ تک تو جگر آیا ہزار مرتبہ منھ تک مرے جگر آیا کہاں تلک گل نہ ہووے غنچہ رہا مندے منھ سو تنگ آیا اک جمع لڑکوں کا بھی لے لے کے سنگ آیا صدشکر کہ مستی میں جانا نہ کہاں آیا ہم خاک کے آسودوں کو آرام نہ آیا القصہ میر کو ہم بے اختیار پایا اس جنس کا یاں ہم نے خریدار نہ پایا پر مطلقاً کہیں ہم اس کا نشاں نہ پایا اب کے شرط وفا بجا لایا بلبل نے کیا سمجھ کر یاں آشیاں بنایا آئی قیامت ان نے جو پردہ اٹھا دیا اس باؤ نے ہمیں تو دیا سا بجھا دیا آخر کو جستجو نے تری مجھ کو کھو دیا بہار جاتی رہی دیکھنے چمن نہ دیا اندوہ و درد عشق نے بیمار کردیا وحشت میں جو سیا سو کہیں کا کہیں سیا اس دل نے کس بلا میں ہمیں مبتلا کیا اس زلف پرشکن نے مجھے مبتلا کیا بے درد سر بھی صبح تلک سر دھنا کیا گل دستہ دستہ جس کو چراغی دیا کیا دل کو لگا کے ہم نے کھینچے عذاب کیا کیا سو بھی رہتا ہوں یہ کہتا ہائے دل نے کیا کیا پردہ رہا ہے کون سا ہم سے حجاب کیا چپکے ہی چپکے ان نے ہمیں جاں بلب کیا اس وہم کی نمود کا ہے اعتبار کیا داغ سے تن گلزار کیا سب آنکھوں کو خونبار کیا کام اس شوق کے ڈوبے ہوئے کا پار کیا دل نے اب زور بے قرار کیا ٹک نظر ایدھر نہیں کہہ اس سے ہے منظور کیا اس خانماں خراب نے آنکھوں میں گھر کیا فرق نکلا بہت جو باس کیا کیا کیا چرخ نے چکر مارے پیس کے مجھ کو خاک کیا جمال یار نے منھ اس کا خوب لال کیا خون ہو بہ سب آپھی گیا عشق حسن و جمال کیا ہم جو فقیر ہوئے تو ہم نے پہلے ترک سوال کیا ہوا کام مشکل توکل کیا غرض اس شوخ نے بھی کام کیا دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا عشق کیا ناکام رہا آخر کو کام تمام کیا کر اک سلام پوچھنا صاحب کا نام کیا کہ ہمسائگاں پر ترحم کیا جد برسوں ہم نے سورئہ یوسفؑ کو دم کیا کیا خرابی سر پہ لایا صومعہ ویراں کیا بلبل نے بھی نہ طور گلوں کا بیاں کیا خاک ناچیز تھا میں سو مجھے انسان کیا آسماں پر گیا ہے ماہ تو کیا کام اپنا اس جنوں میں ہم نے بھی یک سو کیا دور ہی دور پھرے پاس ہمارا نہ کیا گل لگے کہنے کہو منھ نہ ادھر ہم نے کیا آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا پہلے سلوک ایسے ہی تیرے تھے اب ہے کیا ایسے ناداں دلربا کے ملنے کا حاصل ہے کیا دیکھے سے طور اس کے خدا یاد آ گیا کل حال میر دیکھ کے غش مجھ کو آ گیا جیسا گیا تھا ویسا ہی چل پھر کے آ گیا رات کو سینہ بہت کوٹا گیا سب کہیں گے یہ کہ کیا اک نیم جاں مارا گیا میں بے دماغ باغ سے اٹھ کر چلا گیا بس گیا میں جان سے اب اس سے یہ جانا گیا ہنس کے اس پرچے کو میرے ہی گلے بندھوا گیا تھا وہ برندہ زخموں پہ میں زخم کھا گیا جی کو مہماں سنتے تھے مہمان سا آیا گیا ابرو کی تیغ دیکھ مہ عید کٹ گیا ہوکر فقیر صبر مری گور پر گیا دیکھ اس کو بے دماغ نشہ سب اتر گیا دیکھتے ہی آنکھوں میں گھر کر گیا گیا دل سو ہم پر ستم کر گیا دیکھنا وہ دل میں جگہ کر گیا سگ یار آدم گری کر گیا گوہر تر جوں سرشک آنکھوں سے سب کی گر گیا عشق میں کس حسن سے فرہاد ظالم مر گیا زیر لب جب کچھ کہا وہ مر گیا کبھی اس راہ سے نکلا تو تجھے گھور گیا دانتوں کو سلک در جو کہا میں سو لڑ گیا سن گلہ بلبل سے گل کا اور بھی جی رک گیا کل درد دل کہا سو مرا منھ ابل گیا کیا کہوں اے ہم نشیں میں تجھ سے حاصل دل گیا راتوں کو روتے روتے ہی جوں شمع گل گیا لوہو لگا کے وہ بھی شہیدوں میں مل گیا جی کا جانا ٹھہر رہا ہے صبح گیا یا شام گیا پر یہ تیرا نہ امتحان گیا تازہ کیا پیمان صنم سے دین گیا ایمان گیا دوش ہوا پہ رنگ گل و یاسمن گیا ایک دو دم زار باراں رو گیا قافلہ جاتا رہا میں صبح ہوتے سو گیا دیکھی کہاں وہ زلف کہ سودا سا ہو گیا دل پر رکھا تھا ہاتھ سو منھ زرد ہو گیا دوچار دن میں برسوں کا بیمار ہو گیا سہل آگے اس کے مردن دشوار ہو گیا گل باغ میں گلے کا مرے ہار ہو گیا گل اک چمن میں دیدئہ بے نور ہو گیا سنبل چمن کا مفت میں پامال ہو گیا چاہ یوسفؑ تھا ذقن سو چاہ رستم ہو گیا جب تلک ہم جائیں اودھم ہو گیا ہر زماں ملتے تھے باہم سو زمانہ ہو گیا مرنا عاشق کا بہانہ ہو گیا پیش جاتے کچھ نہ دیکھی چشم تر کر رہ گیا رات جو تھی چاند سا گھر سے نکل کر رہ گیا ہم کو بن دوش ہوا باغ سے لایا نہ گیا گھر جلا سامنے پر ہم سے بجھایا نہ گیا جھانکنا تاکنا کبھو نہ گیا اس کی دیوار کا سر سے مرے سایہ نہ گیا کیا گلہ کیجے غرض اب وہ زمانہ ہی گیا قسمے کہ عشق جی سے مرے تاب لے گیا یا محبت کہہ کے یہ بارگراں میں لے گیا اک مغبچہ اتار کے عمامہ لے گیا کہ کاروان کا کنعاں کے جی نکال لیا دل ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا اک ابر واں سے اٹھ کر بے اختیار رویا ہونٹ پر رنگ پان ہے گویا ب کرنا جو کچھ ہو تم کو سو کرلو شتاب اب دیکھیے کیا گل کھلے ہے اور اب حواس گم ہیں دماغ کم ہے رہا سہا بھی گیا شعور اب جا بیٹھیں میکدے میں مسجد سے اٹھ کے صاف اب رہا ہے کیا دل بے تاب میں اب سیدھی نظر جو اس کی نہیں ہے یاس ہے اپنی نظر میں اب ملا کے آنکھیں دروغ کہنا کہاں تلک کچھ حیا کرو اب ناز و نیاز کا جھگڑا ایسا کس کے کنے لے جاوے اب دیدئہ تر ابر سا چھایا ہے اب ہر روز دل کو سوز ہے ہر شب تعب ہے اب بے مروت اس زمانے میں ہمہ حیرت ہے اب یعنی سفر ہے دور کا آگے اور اپنی رخصت ہے اب ناامید اس زندگانی کرنے سے اکثر ہے اب زندگانی ہی درد سر ہے اب کون ایسے محروم غمیں کا ہم راز و محرم ہے اب تیر و کماں ہے ہاتھ میں سینہ نشاں ہے اب گویا کہ جان جسم میں سارے نہیں ہے اب جہاں ٹک آن بیٹھے ہم کہا آرام کریے اب آنسو آتے ہیں اب شتاب شتاب کھاوے گا آفتابہ کوئی خودسر آفتاب اب کم بہت ہے ہم پہ عنایات کیا سبب ہے فرض عین رونا دل کا گداز واجب مر جائے کوئی خستہ جگر تو ہے کیا عجب ہم برے ہی سہی بھلا صاحب آتے ہیں کھنچے ہم کبھو بیگار میں صاحب اب کیا مرے جنوں کی تدبیر میرصاحب ہر دم بھری رہے ہے لوہو سے چشم تر سب خوں بستہ رہتیاں تھیں پلکیں سو اب ہیں تر سب زرد و زار و زبوں جو ہم ہیں چاہت کے بیمار ہیں سب زنجیر ہے مناسب شمشیر ہے مناسب سو جاتے ہیں ولیکن بخت کنار ہر شب پڑتی رہی ہے زور سے شبنم تمام شب مجھ دل زدہ کو نیند نہ آئی تمام شب ٹپکا کرے ہے آنکھوں سے خونناب روز و شب بدزبانی بھی کی ان نے تو کہا بسیار خوب مکر ہے عہد سب قرار فریب ت پر منھ پہ آ ہی جاتی ہے بے اختیار بات کہیے ہووے جو کچھ بھی ڈھب کی بات ملنا اپنا جو ہوا اس سے سو وہ بات کی بات تیغ نے اس کی کیا ہے قسمت یہ بھی ہے قسمت کی بات پر کیا ہی دل کو لگتی ہے اس بد زباں کی بات سنتا نہیں ہے کوئی کلی کے دہاں کی بات گویا وفا ہے عہد میں اس کے کبھو کی بات پر ہم سے تو تھمے نہ کبھو منھ پر آئی بات اس لب و لہجے پر بلبل کو اس کے آگے نہ آئی بات سینہ چاکی اپنی میں بیٹھا کیا کرتا تھا رات ہم آنکھوں میں لے گئے بسر رات تکتے راہ رہے ہیں دن کو آنکھوں میں جاتی ہے رات کیا فکر کروں میں کہ کسو ڈھب ہو ملاقات مایوس ہوں میں بھی کہ ہوں بیمار محبت ویسی دیکھی نہ ایک جا صورت ٹک سوچ بھی ہزار ہیں دشمن ہزار دوست جلے کو اور تو اتنا جلا مت ہوئے جس کے لگے کارآمدہ بیکار یا قسمت مر چلے ہجر میں ہی یا قسمت ہم سے کرتا ہے اب حجاب بہت دل کو میرے ہے اضطراب بہت شاید آوے گا خون ناب بہت دے کسے فرصت سپہر دوں ہے کم فرصت بہت انچھر ہیں تو عشق کے دوہی لیکن ہے بستار بہت عشق کی گرمی دل کو پہنچی کہتے ہی آزار بہت دشتی وحش و طیر آئے ہیں ہونے تیرے شکار بہت کوفت گذرے ہے فراق یار میں جی پر بہت رونا آتا ہے مجھے ہر سحر و شام بہت کڑھتے ہیں دن رات اس پر ہم بہت سو التفات کم ہے دل آزاریاں بہت قدر بہت ہی کم ہے دل کی پر دل میں ہے چاہ بہت کیا کریں ہم چاہتا تھا جی بہت وہ ستمگر اس ستم کش کو ستاتا ہے بہت مرثیے نے دل کے میرے بھی رلایا ہے بہت دل لگا کر ہم تو پچھتائے بہت سر بھی اس کا کھپ گیا آخر کو یاں افسر سمیت تیر تو نکلا مرے سینے سے لیکن جاں سمیت ث دل ہمارا ہے بے قرار عبث مہر کی رکھ کر توقع جی کھپایا ہے عبث یہ کوشش گنہگار کی ہے عبث رکن کاہے کو چشم تر کی خونباری کا کیا باعث ج زہ دامن کی بھری ہے لہو سے کس کو تونے مارا آج اور غرور سے ان نے ہم کو جانا کنکر پتھر آج شاید بگڑ گئی ہے کچھ اس بے وفا سے آج لوہو ٹپکتا ہے گریباں سے آج کوئی گھڑی تو پاس رہو یاں پہروں فرصت کیا ہے آج جو اس چمن میں یہ اک طرفہ انتشار ہے آج دشتی وحش وطیر اس کے سر تیزی ہی میں شکار ہے آج چ پاے جاں درمیاں ہے یاں ٹک سوچ دانستہ جا پڑے ہے کوئی بھی بلا کے بیچ دن نہ پھر جائیں گے عشاق کے اک رات کے بیچ دیر لیکن ہے قیامت ابھی دیدار کے بیچ شور پڑا ہے قیامت کا سا چار طرف گلزار کے بیچ حال رہتا ہی نہیں عشق کے بیمار کے بیچ جی لیے ان نے ہزاروں کے یوں ہی پیار کے بیچ تاثیر ہے گی اہل وفا کے ہنر کے بیچ کاش یہ آفت نہ ہوتی قالب آدم کے بیچ اب کیسے لوگ آئے زمیں آسماں کے بیچ ہوں جو رحمت کے سزاواروں کے بیچ جو کہوں میں کوئی ہے میرے بھی غمخواروں کے بیچ بھیج دے کیوں نہ زلیخا اسے کنعان کے بیچ صبح کی باؤ نے کیا پھونک دیا کان کے بیچ کیا عاشق ہونے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے جہان کے بیچ تم بھی تو دیکھو زلف شکن در شکن کے بیچ زخمی پڑے ہیں مرغ ہزاروں چمن کے بیچ اب یہ ستم تازہ ہے ہم پر قید کیا ہے چمن کے بیچ اس کی سی بو نہ آئی گل و یاسمن کے بیچ جاے شراب پانی بھریں گے سبو کے بیچ رنج ویسے ہی ہیں نباہ کے بیچ باز خواہ خوں ہے میرا گو اسی بستی کے بیچ کیا ہوئی تقصیر اس کی نازبرداری کے بیچ ح ہوتے ہیں ہم ستم زدہ بیمار ہر طرح سر کوئی پتھر سے مارے بھی تو مارے اس طرح کرتا ہے چرخ مجھ سے نئے یار ایک طرح کی عشق نے خرابی سے اس خانداں کی طرح ہر گام پر تلف ہوئے آب رواں کی طرح کچھ آگئی تھی سرو چمن میں کسو کی طرح بھر نہ آویں کیونکے آنکھیں میری پیمانے کی طرح شاخ گل سا جائے ہے لہکا ان نے نئی یہ ڈالی طرح رہنے لگا ہے دل کو اب آزار بے طرح اب ان نے سج بنائی ہے خونخوار بے طرح خ برنگ برق سراپا وہ خودنما ہے شوخ پہ تیرے دونوں لبوں کا بھی کیا ہی رنگ ہے شوخ د آوے گی بہت ہم بھی فقیروں کی صدا یاد جی گیا آخر رہا دل کو جو غم حد سے زیاد اڑا کیے مرے پرکالۂ جگر صیاد چمن کی صبح کوئی دم کو شام ہے صیاد بے یار و دیار اب تو ہیں اس بستی میں وارد اٹھے گی مری خاک سے گرد زرد ہر شہر میں ہوئی ہے یہ داستاں زباں زد اچھا بھی ہووے دل کا بیمار گاہ باشد آخرکار کیا کہا قاصد ابھریں گے عشق دل سے ترے راز میرے بعد سو پھر بگڑی پہلی ہی صحبت کے بعد بہت تڑپا کیا جوں مرغ پر بند آنکھوں میں یوں ہماری عالم سیاہ تا چند ہر پارہ اس کا پاتے ہیں آوارہ دردمند چاک ہے دل انار کے مانند ہے تو کس آفریدہ کے مانند مشکل کریں ہیں جیسے گرفتار باش و بود اب میں ہوں جیسے دیر کا بیمار بدنمود اڑتی ہے خاک میری باد صبا ہے شاہد متروک رسم جور و ظلم و جفا ہے شاید بگڑے تھے کچھ سنور گئے شاید ر جلا ہی پڑا ہے ہمارا تو گھر بار ہاتھ سے جائے گا سررشتۂ کار آخرکار لے گیا رنگ اس کے دل سے تیر یار کہہ اے نسیم صبح گلستاں کی کیا خبر زخم پڑ پڑ گیا مرے پا پر کہ وے نرگسی زن تھے گلہاے تر پر سو پر وا ہوئے نہ قفس کے بھی در پر یاں کون تھوکے ہے صدف ہرزہ کوش پر آفریں کر اے جنوں میرے کف چالاک پر ستم سا ستم ہو گیا اس میں ہم پر شعلہ ہے شمع ساں یاں ہر یک سخن زباں پر میرا دماغ تب سے ہے ہفتم آسماں پر قیامت غم سے ہر ساعت رہی الفت کے ماروں پر یہ فسانہ رہا زبانوں پر کیا کیا سینہ زنی رہتی ہے درد و غم کے فسانوں پر کہ تلواریں چلیں ابرو کی چیں پر جو حادثہ فلک سے نازل ہوا زمیں پر لاتا ہے تازہ آفت تو ہر زماں زمیں پر رکھے نہ تم نے کان ٹک اس داستان پر اللہ رے دماغ کہ ہے آسمان پر اطفال شہر لائے ہیں آفت جہان پر سو جی گئے تھے صدقے اس شوخ کے بدن پر غصے سے تیغ اکثر اپنے رہی گلو پر صوفی ہوا کو دیکھ کے کاش آوے راہ پر ایدھر دیکھو ہم نے نہیں کی خم ابرو مر جانے پر بادہ کشوں کا جھرمٹ ہے کچھ شیشے پر پیمانے پر موتی گویا جڑے ہیں مینے پر دیتا ہے جان عالم اس کی جفا کے اوپر کی تم نے مہربانی بے خانماں کے اوپر نہیں اس قافلے میں اہل دل ضبط نفس بہتر گئی کل ٹوٹ میرے پاؤں کی زنجیر بھی آخر یک سینہ خنجر سینکڑوں یک جان و آزار اس قدر اب ہو گئے ہیں آخر بیمار تیری خاطر کی بات ان نے کوئی سو کیا چبا چبا کر کس رنگ سے کرے ہے باتیں چبا چبا کر ایسے گونگے بیٹھو ہو تم تو بیٹھیے اپنے گھر جا کر فراق ایسا نہیں ہوتا کہ پھر آتے نہیں جا کر پھر دیکھنا ادھر کو آنکھیں ملا ملا کر کھلے بند مرغ چمن سے ملا کر پر حیف میں نہ دیکھا بالیں سے سر اٹھا کر غمزے ہیں بلا ان کو نہ سنکار دیا کر کیا اجاڑا اس نگر کو لوٹ کر ہم پھینک دیں اسے ترے منھ پر نثار کر تصدیع کھینچی ہم نے یہ کام اختیار کر کاے میر کچھ کہیں ہم تجھ کو عتاب کر کر دل کوئی لے گیا ہے تو میر ٹک جگر کر دم کھینچ تہ دل سے کوئی ٹکڑے جگر کر جاتے رہیں گے ہم بھی گریبان پھاڑ کر ٹھہرے ہے آرسی بھی دانتوں زمیں پکڑ کر جاتی ہیں یوں ہی ناداں جانیں ترس ترس کر مانند گل شگفتہ جبیں یاں معاش کر جی لے گئے یہ کانٹے دل میں کھٹک کھٹک کر اگرچہ جان جاتی ہے چلی لیکن تغافل کر خاطر سے ہی مجھ مست کی تائید دور جام کر اور نیچی نظر کریں کیوں کر آؤ بھلا کبھو تو سو جاؤ زبان کر انجان اتنے کیوں ہوئے جاتے ہو جان کر بیٹھا ہوں میں ابھی ٹک سارا جہاں ڈبو کر آج لہو آنکھوں میں آیا درد و غم سے رو رو کر ماتم کدے کو دہر کے تو عیش گاہ کر پر ہوسکے جو پیارے دل میں بھی ٹک جگہ کر چشم سیاہ ملا کر یوں ہی مجھ کو خانہ سیاہ نہ کر جاتے ہیں جی سے کس قدر آزار دیکھ کر لاگو ہو میرے جی کا اتنی ہی دوستی کر دستۂ داغ و فوج غم لے کر گذرے گا اتقا میں عہد شباب کیونکر ہو چہرہ اس کے لب سے یاقوت ناب کیونکر خوں بستہ ہیں گی آنکھیں آوے گی خواب کیونکر غیرت سے رہ گئے ہم یک سو کباب ہوکر کیا پھول مرگئے ہیں اس بن خراب ہوکر مگر اور تھے تب ہوئے ہو اب اور میں اور یار اور مرا کاروبار اور کیا سر میں خاک ڈالتی ہے اب ہوا کچھ اور حال ہے اور قال ہے کچھ اور جی لگ رہا ہے خار و خس آشیاں کی اور بے لطفیاں کرو ہو یہ تس پر غضب ہے اور وہ گھر سے نہیں اپنے نکلتا دم بھر بھی تلوار بغیر ز آتش کا ایسا لائحہ کب ہے زباں دراز آؤ کہیں کہ رہتے ہیں رفتہ تمام روز کوچہ کوئی کوئی ہے چمن زار سا ہنوز بسمل پڑی ہے چرخ پہ میری دعا ہنوز غنچہ ہے وہ لگی نہیں اس کو ہوا ہنوز دل کا بیٹھا نہیں غبار ہنوز دل بہاران چمن کا ہے گرفتار ہنوز تر ہیں سب سرکے لہو سے در و دیوار ہنوز نہ گیا دل سے روے یار ہنوز راہی بھی کچھ سنا نہیں جاتے خبر ہنوز کچھ پذیرا نہیں نیاز ہنوز مارا ہے بے گناہ و گناہ اس طرف ہنوز ہوچکے حشر میں پھرتا ہوں جگر چاک ہنوز ہیں مژہ دستور سابق ہی یہ میری نم ہنوز پیدا ہے عشق کشتے کا اس کے نشاں ہنوز آنکھیں مندیں اب جاچکے ہم وے دیکھو تو آتے ہیں ہنوز ہے گریبان پارہ پارہ ہنوز ہر دم نئی ہے میری گریباں دری ہنوز اس نکہت سے موسم گل میں پھول نہیں یاں آئے ہنوز س گویا کہ جا رہا کسو سوزندہ نار پاس یا اب پھٹک نہیں ہے کہیں ان کے آس پاس رہے خنجر ستم ہی کے گلو پاس رہتی ہے آرسی ہی دھری خودنما کے پاس تو بھی ٹک آن کھڑا ہوجو گنہگار کے پاس حال پرسی بھی نہ کی آن کے بیمار کے پاس آ کے ڈوبی جاتی ہے کشتی مری ساحل کے پاس ناقصوں میں رہیے کیا رہیے تو صاحب دل کے پاس سنتا نہیں اس قافلے میں کوئی جرس بس نہیں اس راہ میں فریادرس بس مری بخت آزمائی ہوچکی بس نہ یہی خوں دل و جگر ہے بس نہ جدا ہو کے پھر ملا افسوس آہ افسوس صد ہزار افسوس گل کو دیکھا بھی نہ ہزار افسوس بہ گیا خون ہو جگر افسوس کیا کیا کڑھایا جی سے مارا لوہو پیا افسوس افسوس ش اس کا ہو جاتا دل شکار اے کاش منھ کرے ٹک ادھر بہار اے کاش رہتی ایک آدھ دن بہار اے کاش خوشا ہم جو نہ رکھے ہم کو نا خوش بستر پہ گرے رہتے ہیں بیمار سے نا خوش کچھ اس کی ہم نے پائی نہ رفتار کی روش یک جان و صد تمنا یک دل ہزار خواہش کیا جانیے کہ کیا ہے یارو خدا کی خواہش اس آرزو نے مارا یہ بھی خدا کی خواہش ہے عجب طور کا سفر درپیش راہ رفتن ہے اب مگر درپیش خوبی رہا کرے ہے مری جان کیا ہمیش ص دین و مذہب مرا ہے پیار اخلاص ض ہے معلوم کہ عالم عالم پھر یاں وہ جاری ہے فیض ط ہر لمحہ لحظہ آن و زماں ہر دم اختلاط ہوتا تھا اگلے لوگوں میں بھی باہم اختلاط ہوتے ہیں یہ لوگ بھی کتنے پریشاں اختلاط اس کو خدا ہی ہووے تو ہو کچھ خدا سے ربط کہ ہمیں متصل لکھا ہے خط سو تو بہا تھا خوں ہو آگے پہلے داؤ ہی ہارے شرط بے خبر مت رہو خبر ہے شرط زردی رنگ و چشم تر ہے شرط اول گام ترک سر ہے شرط ہوتے ہیں برخودغلط یہ ہو گیا یہ کیا غلط ظ مزہ عمر کا ہے جوانی سے حظ کیونکے جئیں یارب حیرت ہے بے مزہ ایسے نا محظوظ ایسی شے کا زیاں کھینچے تو دانا ہووے نا محظوظ تجھ سے ملتے ہیں رہتے ہیں محظوظ ع کڑھیے کب تک نہ ہو بلا سے نفع سحر تک سب ان نے ہی کھائی تھی شمع وہ منھ ٹک اودھر نہیں کرتا داغ ہے اس کے غرور سے شمع یعنی اس آتش کے پرکالے سے شرماتی ہے شمع ہو خجل ایسی کہ منھ اپنا نہ پھر دکھلائے شمع غ ہاتھ گلوں سے گلدستے ہیں شمع نمط ہے سر پر داغ باقی نہیں ہے چھاتی میں اپنی تو جاے داغ سوز دل سے داغ ہے بالاے داغ عشق نے کیا ہمیں دکھائے داغ تھا میر بے دماغ کو بھی کیا بلا دماغ کہاں دماغ ہمیں اس قدر دروغ دروغ یہ حرکت تو ہم نہ کریں گے خانہ سیاہ دروغ دروغ ہم ہوئے خستہ جاں دریغ دریغ ف کوئی نظر کر عبرت آگیں اس کے نازو ادا کی طرف ہر خوں گرفتہ جائے ہے جلاد کی طرف دیکھو کنکھیوں ہی سے گنہگار کی طرف نگاہیں ہیں میری نظر کی طرف تو مائل نہ ہو پھر گہر کی طرف جاتا ہے صید آپ سے اس دام کی طرف ورنہ سبھی دیکھا کرتے ہیں اپنے سود و زیاں کی طرف کھنچا جائے ہے دل کسو کی طرف پلکیں نہ ہوئی تھیں مری خوناب سے واقف حرف و سخن جو بایک دیگر رہتے تھے سو اب موقوف رسم ظاہر تمام ہے موقوف ق اک جھمکے میں کہاں پھر صبر و قرار عاشق کیا جاکے دو چار اس سے ہو ناچار ہے عاشق اور آسماں غبار سر رہ گذار عشق حق شناسوں کے ہاں خدا ہے عشق کچھ کہتے ہیں سر الٰہی کچھ کہتے ہیں خدا ہے عشق ہم ہیں جناب عشق کے بندے نزدیک اپنے خدا ہے عشق جان کا روگ ہے بلا ہے عشق شیخ کیا جانے تو کہ کیا ہے عشق عشق اللہ صیاد انھیں کہیو جن لوگوں نے کیا ہے عشق مجنوں کو میری اور سے کہیو دعاے شوق ک دل جلا کوئی ہو گیا کیا خاک چھاتی پہ بعد مرگ بھی دل جم ہے زیر خاک خشک ہوا خون اشک کے بدلے ریگ رواں سی آئی خاک کر ہاتھ ٹک ملا کے کوئی پہلواں ہلاک موجزن برسوں سے ہے دریا ہے چشم گریہ ناک نہ ایسا کھلا گل نزاکت سے اب تک سوکھا نہیں لوہو در و دیوار سے اب تک سر مارے ہیں اپنے در و دیوار سے اب تک پھرتے ہیں کمھاروں کے پڑے چاک سے اب تک کہ پہنچا شمع ساں داغ اب جگر تک سر زخم پہنچا ہے شاید جگر تک نہ پہنچا کبھو ہاتھ اس کی کمر تک ہاتھ پہنچا نہ پاے قاتل تک پر حوصلے سے شکوہ آیا نہیں زباں تک لیکن کبھو شکایت آئی نہیں زباں تک آشوب نالہ اب تو پہنچا ہے لامکاں تک آشوب نالہ اب تو پہنچا ہے آسماں تک جی رندھ گیا ہے ظالم اب رحم کر کہاں تک پاس جاتا ہوں تو کہتا ہے کہ بیٹھو دور ٹک چپکے چپکے کسو کو چاہا پوچھا بھی تو نہ بولے ٹک کر جاؤں گا سفر ہی میں دنیا سے تب تلک وہ بیچتا رہے گا خریدار کب تلک آتی نہیں ہے تو بھی شکایت زباں تلک طوفاں ہے میرے اشک ندامت سے یاں تلک رسوائیاں گئی ہیں عقیق یمن تلک جس کی لے دام سے تاگوش گل آواز ہے ایک دوری رہ ہے راہ بر نزدیک تنہائی ایک ہے سو ہے اس کے ستم شریک گ اک سارے تن بدن میں مرے پھک رہی ہے آگ کرتے ہیں دوڑ نت ہی تماشاے یار الگ کچھ اور صبح دم سے ہوا ہے ہوا کا رنگ چشم پرخوں فگار کے سے رنگ یعنی ضائع اپنے تئیں کرتے ہیں اس بن کیا کیا لوگ ہم کھڑے تلواریں کھاویں نقش ماریں اور لوگ دل کے مرض عشق سے بیمار ہیں ہم لوگ سرگرم بے راہ روی ہیں خود گم بے رہبر ہیں لوگ بہت اس طرف کو تو جاتے ہیں لوگ مگر آئے تھے میہمان سے لوگ حالانکہ رفتنی ہیں سب اس کارواں کے لوگ ل دل وہی بے قرار ہے تا حال پرواز خواب ہو گئی ہے بال و پر خیال یک مشت پر پڑے ہیں گلشن میں جاے بلبل اے رشک حور آدمیوں کی سی چال چل پیمبر دل ہے قبلہ دل خدا دل الٰہی غنچہ ہے پژمردہ یا دل جاتا ہے کچھ ڈھہا ہی خانہ خراب اب دل آندھی سی آوے نکلے کبھو جو غبار دل دیوانہ دل بلا زدہ دل بے قرار دل آزردہ دل ستم زدہ و بے قرار دل اب دماغ اڑتا ہے باتوں میں کہ ہوں بیمار دل کم دماغی ہے بہت مجھ کو کہ ہوں بیمار دل اب جو کھلا سو جیسے گل بے بہار دل مثل مشہور ہے یہ تو کہ ہے دنیا میں دلبر دل دیکھی نہ بے ستوں میں زور آزمائی دل نزدیک ہے کہ کہیے اب ہائے ہائے اے دل چشم بصیرت وا ہووے تو عجائب دید کی جا ہے دل یوں بے دم ہے اب پہلو میں جوں صید بسمل ہے دل ترا اے برق خاطف اس طرف گرنا ہے لا حاصل ہوا کاغذ نمط گو رنگ تیرا زرد کیا حاصل لگتا نہیں ہے دل کا خریدار آج کل صبح گہ اٹھتے ہی عالم کو ڈبوویں گے کل دل جو کھلا فسردہ تو جوں بے بہار گل چھانی چمن کی خاک نہ تھا نقش پاے گل لیکن ہزار حیف نہ ٹھہری ہواے گل چڑھ جائے مغز میں نہ کہیں گرد بوے گل ہے خزاں میں دل سے لب تک ہائے گل اے وائے گل پر اس بغیر اپنے تو جی کو نہ بھائے گل ہم تو اس بن داغ ہی تھے سو اور بھی جل کر کھائے گل کہاں تک خاک میں میں تو گیا مل یار اگر ہے اہل تو ہے کام سہل م دفتر لکھے گئے نہ ہوا پر سخن تمام سب سے گلی کوچوں میں ملو ہو پھرتے رہو ہو گھر گھر تم ایسا نہ ہو کہ میرے جی کا ضرر کرو تم کاشکے پردے ہی میں بولو تم ہے بے خبری اس کو خبردار رہو تم ان بدمزاجیوں کو چھوڑوگے بھی کبھو تم پاؤں کا رکھنا گرچہ ادھر کو عار سے ہے پر آؤ تم جی دینا پڑتا ہے اس میں ایسا نہ ہو پچھتاؤ تم کیا کہیے نہ ہماری سنی اب بیٹھے رنج اٹھاؤ تم نہ جاتے اس طرف تو ہاتھ سے اپنے نہ جاتے تم آنا یک سو کب دیکھو ہو ایدھر آتے جاتے تم رحلت کرنے سے آگے مجھ کو دیکھتے آتے جاتے تم پر مل چلا کرو بھی کسو خستہ جاں سے تم ہے آج عید صاحب میرے لگے گلے تم الفت گزیدہ مردم کلفت کشیدہ مردم بلا پر چلے آئے ہر ہر قدم ہمیشہ آگ ہی برسے ہے یاں ہوا ہے گرم یہی سبب ہے جو کھائی ہے میں دوا کی قسم تجھ کو بالیں پر نہ دیکھا کھولی سو سو بار چشم اے ابر تر آ کر ٹک ایدھر بھی برس ظالم نکلے پردے سے کیا خدا معلوم آن لگے ہیں گور کنارے اس کی گلی میں جا جا ہم گئے گذرے ہیں آخر ایسے کیا ہم بے وجہ غضب رہنے کا پوچھیں جو سبب ہم سر پر دیکھا یہی فلک ہے جاویں کیدھر چل کر ہم کاش رہتے کسو طرف مر ہم جھانکتے اس کو ساتھ صباکے صبح پھریں ہیں گھر گھر ہم واقف نہیں ہواے چمن سے اسیر ہم نزدیک اپنے کب کے ہوئے ہیں ہلاک ہم مہندی لگی قدم سے ہوئے پائمال ہم شہرۂ عالم تھے اس کے ناز برداروں میں ہم راہ خرابے سے نکلی نہ گھر کی بستی میں کیوں کر جاویں ہم کاش اجل بے وقت ہی پہنچے ایک طرف مرجاویں ہم لیک لگ چلنے میں بلا ہیں ہم اک مشت استخواں ہیں پر اپنے بار ہیں ہم کیوں کر اڑ کر پہنچیں اس تک طائر بے پر ہیں ہم عشق کی مے سے چھک رہے ہیں ہم خموش دیکھتے رہتے ہیں اس کے رو کو ہم گل کب رکھے ہے ٹکڑے جگر اس قدر کہ ہم پھر ہوچکے وہیں کہیں گھر جاسکے نہ ہم کس کس ناز سے وے آتے پر آنکھ نہ ان سے ملاتے ہم تو یہی آج کل سدھارے ہم آجاویں جو یہ ہرجائی تو بھی نہ جاویں جا سے ہم لڑنے لگے ہیں ہجر میں اس کے ہوا سے ہم جیے ہیں خدا ہی کی قدرت سے ہم پر تنگ آگئے ہیں تمھارے ستم سے ہم کچھ ہورہے ہیں غم میں ترے نیم جاں سے ہم یہ درد اب کہیں گے کسو شانہ بیں سے ہم اپنی آنکھوں سے اسے یاں جلوہ گر دیکھیں گے ہم کانپا کرے ہے جی سو ٹھہرا کے رہ گئے ہم بستر پہ گرے رہتے ہیں ناچار ہوئے ہم ں اس سے آنکھیں لگیں تو خواب کہاں دل کہاں وقت کہاں عمر کہاں یار کہاں تم ہوئے رعنا جواں بالفرض لیکن ہم کہاں غم سے پانی ہوکے کب کا بہ گیا میں ہوں کہاں لے گئے پیش فلک اس مہ کا ایسا رو کہاں مروت قحط ہے آنکھیں نہیں کوئی ملاتا یاں دامن ہے منھ پہ ابر نمط صبح و شام یاں لیلیٰ کا ایک ناقہ سو کس قطار میں یاں وے اندھیری مینھ برسے جوں کبھو شدت سے یاں جاتی رہے گی جان اسی رہگذر سے یاں روز برسات کی ہوا ہے یاں مہلت ہمیں بسان شرر کم بہت ہے یاں کھو گئے دنیا سے تم ہو اور اب دنیا ہو میاں دیدنی ہے پہ بہت کم نظر آتا ہے میاں جس سے دل آگ و چشم آب ہے میاں یہ دوانہ باؤلا عاقل ہے میاں خاک سی منھ پر مرے اس وقت اڑ جاتی ہے میاں رہتی ہے میرے خلق کے تلوار درمیاں دل تو کچھ دھنسکا ہی جاتا ہے کروں سو کیا کروں اس میں حیراں ہوں بہت کس کس کا میں ماتم کروں رہ رہ گئے مہ و خور آئینہ وار دونوں پر تمامی عتاب ہیں دونوں ہوئے ہیں دل جگر بھی سامنے رستم ہیں یہ دونوں خفت کھینچ کے جاتا ہوں رہتا نہیں دل پھر آتا ہوں دل کی پھر دل میں لیے چپکا چلا جاتا ہوں محتسب کو کباب کرتا ہوں فاقہ مستی مدام کرتا ہوں کہتا ہے بن سنے ہی میں خوب جانتا ہوں ہر چند کہ جلتا ہوں پہ سرگرم وفا ہوں تمھارے ساتھ گرفتار حال اپنا ہوں بھاگوں ہوں دور سب سے میں کس کا آشنا ہوں محزوں ہوویں مفتوں ہوویں مجنوں ہوویں رسوا ہوں کہا کہ ایسے تو میں مفت مار لایا ہوں عمر گذری پر نہ جانا میں کہ کیوں دل گیر ہوں اک آگ مرے دل میں ہے جو شعلہ فشاں ہوں بھروسا کیا ہے میرا میں چراغ زیر داماں ہوں اب دو تو جام خالی ہی دو میں نشے میں ہوں پہ یہ غم ہے میں بھی سر راہ ہوں بیگانہ وضع تو ہوں پر آشنا زدہ ہوں رنگ رو جس کے کبھو منھ نہ چڑھا میں ہی ہوں پھر آپھی آپ سوچ کے کہتا ہوں کیا کہوں دیوانے کو جو خط لکھوں بتلاؤ کیا لکھوں اکثر نہیں تو تجھ کو میں گاہ گاہ دیکھوں ترے غم کو اکیلا چھوڑ کر پیارے کہاں جاؤں بیماریوں میں جیسے بدلتے ہیں گھر کے تیں دیتا ہے آگ رنگ ترا گلستاں کے تیں ان نے جو اس طول سے کھینچا پریشانی کے تیں نہیں آتیں کیا تجھ کو آنے کی باتیں کہو تم سو دل کا مداوا کریں کس کے ہوں کس سے کہیں کس کنے فریاد کریں زمانہ ہووے مساعد تو روزگار کریں الا کھینچ بغل میں تجھ کو دیر تلک ہم پیار کریں اب جی میں ہے کہ شہر سے اس کے سفر کریں رسوا ہوکر مارے جاویں اس کو بھی بدنام کریں تو بوالہوس نہ کبھو چشم کو سیاہ کریں کرے ہے آپھی شکایت کہ ہم گلہ نہ کریں جھلک سی مارتی ہے کچھ سیاہی داغ سودا میں گہر پہنچا بہم آب بقا میں طرف گلزار کی آیا چلا میں لگ اٹھتی آگ سب جوِّ سما میں سو آئینہ سا صورت دیوار ہوا میں جاتا ہے جی چلا ہی مرا اضطراب میں رہتی ہے خلش نالوں سے میرے دل شب میں سوراخ پڑ گئے جگر عندلیب میں عاشق زار کو مار رکھے ہے ایک ابرو کی اشارت میں ان صورتوں کو صرف کرے خاک و خشت میں کہ مل جاتا ہے ان جوئوں کا پانی بحر رحمت میں سو غزل پڑھتے پھرے ہیں لوگ فیض آباد میں دن آج کا بھی سانجھ ہوا انتظار میں تو کیا رہیں گے جیتے ہم اس روزگار میں کیا کچھ نہ ہم بھی دیکھ چکے ہجر یار میں اب ہجر یار میں ہیں کیا دل زدہ سفر میں لگی ہے آگ اک میرے جگر میں پیشانی پر ہے قشقہ زنار ہے کمر میں ظل ممدود چمن میں ہوں مگر زنجیر میں مزہ رس میں ہے لوگے کیا تم کرس میں کم اتفاق پڑتے ہیں یہ اتفاق میں ایک رہتا ایک کھوتے عشق میں یارب یہ آسمان بھی مل جائے خاک میں سو سو کہیں تونے مجھے منھ پر نہ لایا ایک میں تڑپا ہزار نوبت دل ایک ایک دم میں کنواں اندھا ہوا یوسفؑ کے غم میں ایسی جنت گئی جہنم میں برسنا مینھ کا داخل ہے اس بن تیر باراں میں خلل سا ہے دماغ آسماں میں نکلی ہے مگر تازہ کوئی شاخ کماں میں وہی اک جنس ہے اس کارواں میں اس آتش خاموش کا ہے شور جہاں میں پگڑی جامے بکے جس کے لیے بازاروں میں ہم جو عاشق ہیں سو ٹھہرے ہیں گنہگاروں میں پھر جو یاد آتا ہے وہ چپکا سا رہ جاتا ہوں میں بہ خدا با خدا رہا ہوں میں کس خوش سلیقگی سے جگر خوں کروں ہوں میں الگ بیٹھا حنا بندوں کو آنکھوں میں رچاؤں میں مطلق نہیں ہے بند ہماری زبان میں یہ وہ نہیں متاع کہ ہو ہر دکان میں کپڑے اتارے ان نے سر کھینچے ہم کفن میں بندھی مٹھی چلا جا اس چمن میں مانا کیا خدا کی طرح ان بتاں کو میں پر ایک حیلہ سازی ہے اس دست گاہ میں گدائی رات کو کرتا ہوں خجلت سے فقیری میں الٰہی شکر کرتا ہوں تری درگاہ عالی میں گرچہ ہوتے ہیں بہت خوف و خطر پانی میں جیسے ماہی ہے مجھے سیر و سفر پانی میں بارے سب روزے تو گذرے مجھے میخانے میں چھاتی سے وہ مہ نہ لگا ٹک آ کر اس بھی مہینے میں کیا لہو اپنا پیا تب یہ ہنر آیا ہمیں بہت ان نے ڈھونڈا نہ پایا ہمیں رہا دیکھ اپنا پرایا ہمیں یوں نہ کرنا تھا پائمال ہمیں پر وفا کا برا کیا تونیں اس طور اس طرح کے ایسے کم آشنا ہیں عاشقی میں بلائیں کیا کیا ہیں دل زینہار دیکھ خبردار بہت ہیں یہ جرم ہے تو ایسے گنہگار بہت ہیں پہ جوش دل میں کبھو آ گیا تو طوفاں ہیں دیکھیں تو تیری کب تک یہ بد شرابیاں ہیں رونے سے تب تو میری کچھ آنکھیں جلتیاں ہیں ایدھر سے ہیں دعائیں اودھر سے گالیاں ہیں مانند جام خالی گل سب جماہیاں ہیں اب ہم نے بھی کسو سے آنکھیں لڑائیاں ہیں رک کر پھوٹ بہیں جو آنکھیں رود کی سی دو دھاریں ہیں درویش کتنے ماتم باہم کیا کریں ہیں یاد میں اس خود رو گل تر کی کیسے کیسے بولیں ہیں دل کے پہلو سے ہم آتش میں ہیں اور آب میں ہیں اس اوباش کی دیکھو شوخی سادگی سے ہم چاہیں ہیں ہو تخت کچھ دماغ تو ہم پادشاہ ہیں ساتھ اس کارواں کے ہم بھی ہیں یہ کانٹے کھٹکتے جگر میں بھی ہیں یہیں آگے بہاریں ہو گئی ہیں آپ میں ہم سے بے خود و رفتہ پھر پھر بھی کیا آتے ہیں وہ کوئی اور ہیں جو اعتبار پاتے ہیں تا نظر کام کرے رو بقفا جاتے ہیں جیسے چراغ آخری شب ہم لوگ نبڑتے جاتے ہیں چھاتیاں سلگیں ہیں ایسی کہ جلے جاتے ہیں متصل شمع سے روتے ہیں گلے جاتے ہیں گو رقیباں کچھ اور گاتے ہیں اب دل گرفتگی سے آزار کھینچتے ہیں جان و ایمان و محبت کو دعا کرتے ہیں وار جب کرتے ہیں منھ پھیر لیا کرتے ہیں لگ گیا ڈھب تو اسی شوخ سے ڈھب کرتے ہیں بہت پرہیز کر ہم سے ہمیں بیمار کرتے ہیں جوانوں کو انھیں ایام میں زنجیر کرتے ہیں سوز و درد و داغ و الم سب جی کو گھیرے پھرتے ہیں ہر دم جگروں میں کچھ کانٹے سے کھٹکتے ہیں داغ جیسے چراغ جلتے ہیں ہم کنج قفس میں ہیں دل سینوں میں جلتے ہیں اس راہ میں وے جیسے انجان نکلتے ہیں اپنے سواے کس کو موجود جانتے ہیں سرو و قمری شکار ہوتے ہیں آرزوے جہان ہوتے ہیں وے روگ اپنے جی کو ناحق بساہتے ہیں ایک عالم میں ہیں ہم وے پہ جدا رہتے ہیں چپکے تم سنتے ہو بیٹھے اسے کیا کہتے ہیں ولے کم ہیں بہت وے لوگ جن کو یار کہتے ہیں تو بھی ہم دل کو مار رکھتے ہیں سارے تیرا خیال رکھتے ہیں نہ پوچھو جو کچھ رنگ ہم دیکھتے ہیں بیٹھنے پاتے نہیں ہم کہ اٹھا دیتے ہیں اہل اس گھر پہ جان دیتے ہیں ہم جو دیکھیں ہیں تو وے آنکھ چھپا لیتے ہیں دل کلیجا نکال لیتے ہیں اور گذارا کب تک ہو گا کچھ اب ہم رخصت سے ہیں اس ریختے کو ورنہ ہم خوب کرچکے ہیں سر مار مار یعنی اب ہم بھی سو چلے ہیں ہجراں میں اس کے ہم کو بہتیرے مشغلے ہیں بدوضع یاں کے لڑکے کیا خوش معاملے ہیں خوبرو کس کی بات مانے ہیں ہم لوگ تیرے اوپر سو جی سے مر رہے ہیں عزلتی شہر کے بازار میں آ بیٹھے ہیں بے یار و بے دیار و بے آشنا ہوئے ہیں جی چاہتا ہے جا کے کسو اور مر رہیں یار بن لگتا نہیں جی کاشکے ہم مر رہیں مذکور ہوچکا ہے مرا حال ہر کہیں جائیں یاں سے جو ہم اداس کہیں اور مطلق اب دماغ اپنا وفا کرتا نہیں تم تو کرو ہو صاحبی بندے میں کچھ رہا نہیں بہت ہی حال برا ہے اب اضطراب نہیں دل کو خیال صبر نہیں آنکھوں کو میل خواب نہیں ایک مدت سے وہ مزاج نہیں ورنہ یہ کنج قفس بیضۂ فولاد نہیں خون کسو کا کوئی کرے واں داد نہیں فریاد نہیں وے بہا سہل جو دیتے ہیں خریدار نہیں نیند آتی ہے دل جمعی میں سو تو دل کو قرار نہیں کیا جانیے کدھر کو گیا کچھ خبر نہیں کیوں کر کہیے بہشتی رو ہے اس خوبی سے حور نہیں شمع روشن کے منھ پہ نور نہیں ہم دل جلوں کی خاک جہاں میں کدھر نہیں رنگ طپیدن کی شوخی سے منھ پر میرے رنگ نہیں اتنا ہے کہ طپش سے دل کی سر پر وہ دھمّال نہیں وقت ملنے کا مگر داخل ایام نہیں پر اس ستم سے بامزہ لطف و کرم نہیں گوش گل سے لگتے تھے جاکے سو وہ موسم نہیں جن کے نشاں تھے فیلوں پر ان کا نشاں نہیں اس غم کدے میں آہ دل خوش کہیں نہیں سب کو دعویٰ ہے ولے ایک میں یہ جان نہیں اب کہتے ہیں خلطہ کیسا جان نہیں پہچان نہیں میں جوں نسیم باد فروش چمن نہیں مریں بھی ہم تو نہ دیکھیں مروت ان کو نہیں کسو سے شہر میں کچھ اختلاط مجھ کو نہیں سو لطف کیوں نہ جمع ہوں اس میں مزہ نہیں رہ عشق میں پھر خطر کچھ نہیں پلک سے پلک آشنا ہی نہیں ہو گر شریف مکہ مسلمان ہی نہیں نامے کا اس کی مہر سے اب نام بھی نہیں کہ حالت مجھے غش کی آئی نہیں بھلا ہوا کہ تری سب برائیاں دیکھیں حسن قبول کیا ہو مناجات کے تئیں پلکوں کی صف کو دیکھ کے بھیڑیں سرک گئیں ن نہ گلے سے میرے اترا کبھو قطرہ آب تجھ بن کہ موئے قید میں دیوار بہ دیوار چمن و وہی دور ہو تو وہی پھر نہ آ تو نہ ہو گلچین باغ حسن ظالم زرد ہو گا تو کہتا ہے ترا سایہ پری سے کہ ہے کیا تو اوروں سے مل کے پیارے کچھ اور ہو گیا تو اب کار شوق اپنا پہنچا ہے یاں تلک تو برہم زدہ شہر ہے جہاں تو کس قدر مغرور ہے اللہ تو اس رو کا مثل آئینہ حیراں ہوا نہ تو آسماں آ گیا ورے کچھ تو ٹک اک خاطر خواب صیاد کیجو دیکھا کریں ہیں ساتھ ترے یار ایک دو جان سے بھی ہم جاتے رہے ہیں تم بھی آؤ جانے دو دانت سنا ہے جھمکیں ہیں اس کے موتی کے سے دانے دو ابر آیا زور غیرت تم بھی ٹک پیدا کرو گل پھول دیکھنے کو بھی ٹک اٹھ چلا کرو دل کو مزے سے بھی تو تنک آشنا کرو منت بھی میں کروں تو نہ ہرگز منا کرو جی الجھتا ہے بہت مت بال سلجھایا کرو نہ گرم ہوکے بہت آگ ہو کے آب کرو کھولو منھ کو کہ پھر خطاب کرو اس کنے بیٹھنے پاؤ تو مباہات کرو کہتے ہیں اپنی ٹوپی سے بھی مشورت کرو تب کسی نا آشناے مہر سے الفت کرو جو کچھ کہ تم سے ہوسکے تقصیر مت کرو ہم فراموش ہوؤں کو بھی کبھو یاد کرو یہی حال ہمیشہ رہا کیا تو مآل پر بھی نظر کرو یعنی سایۂ سرو و گل میں اب مجھ کو زنجیر کرو جنس تقویٰ کے تئیں صرف مئے خام کرو نومیدیاں ہیں کتنی ہی مہمان آرزو بس اب تو کھل گئیں ہیں آنکھیں دیکھا ہم نے دنیا کو کیا آفت آگئی مرے اس دل کی تاب کو وہ جو تڑپا لے گیا آسودگی و خواب کو مجلس میں بہت وجد کی حالت رہی سب کو رکھے خدا جہاں میں دل بے قرار کو سلایا مرے خوں میں تلوار کو لے گئی ہیں دور تڑپیں سایۂ دیوار کو خوں کیا ہے مدتوں اس میں غم بسیار کو قدرت سے اس کے دل کی کل پھیر دے ادھر کو بے وقر جانتے ہیں دل بے گداز کو صحبت رکھے گلوں سے اتنا دماغ کس کو زہر دیویں کاشکے احباب اس درویش کو صبح کی باؤ سے لگ لگنے نہ دیتی گل کو تہ کر صنم خانے چلا ہوں جامۂ احرام کو ہاں کہو اعتماد ہے ہم کو اک نالہ حوصلے سے بس ہے وداع جاں کو نکالا سر سے میرے جاے مو خار مغیلاں کو کہ بھر جھولی نہ یاں سے لے گئی گل ہاے حرماں کو کچھ تمھیں پیار نہیں کرتے جفا ماروں کو مار رکھا بیتابی دل نے ہم سب غم کے ماروں کو دینا تھا تنک رحم بھی بیدادگروں کو کھلانا کھولنا مشکل بہت ہے ایسے کالوں کو کہ افشاں کیجے خون اپنے سے اس کے دامن زیں کو نرمی بھی کاش دیتا خالق ٹک اس کی خو کو محل شکر ہے آتا نہیں گلہ مجھ کو کہیں اپنے رونے سے فرصت ہے مجھ کو کوئی تو چاہیے جی بھی نیاز کرنے کو دیکھتے ہو تو دیکھو ہمارے جلتے توے سے سینے کو وقف اولاد ہے وہ باغ تو غم کاہے کو رنگ اس کا کہیں یاد نہ دے زنہار اس سے کچھ کام نہ لو اور رسوائی کا اندیشہ جدا رکھتا ہو رات جاتی ہے اسی غم میں کہ فردا کیا ہو وہ چاند سا جو نکلے تو رفع حجاب ہو آنکھ کا لگنا نہ ہو تو اشک کیوں خوناب ہو کیا کہیں جو کچھ کہ ہو تم خوب ہو قد قامت یہ کچھ ہے تمھارا لیکن قہر قیامت ہو یا تجھ کو دل شکستوں سے اخلاص پیار ہو پاس تو ہے جس کے وے ہی کل کہیں گے دور ہو ایسا نہ ہو کہ کام ہی اس کا اخیر ہو معشوق کا ہے حسن اگر دل نواز ہو جو صحن خانہ میں تو ہو در و دیوار عاشق ہو درمیاں تو ہو سامنے گل ہو ہم تو ہوں بدگمان جو قاصد رسول ہو ابھی کیا جانیے یاں کیا سماں ہو کیا جانے منھ سے نکلے نالے کے کیا سماں ہو میں خوش ہوں اسی شہر سے میخانہ جہاں ہو خاموش ان لبوں سے کوئی بات ہو تو ہو سو تب تلک کہ مجھ کو ہجراں سے تیرے خو ہو لگ پڑتے ہیں ہم تم سے تو تم اوروں کو لگا دو ہو جی میں ہم نے یہ کیا ہے اب مقرر ہو سو ہو ساتھ ان کے چل تماشا کرلے جس کو چاؤ ہو بیتاب دل کا مرگ کہیں مدعا نہ ہو بے رحمی اتنی عیب نہیں بے وفا نہ ہو سو سو قاصد جان سے جاویں یک کو ادھر سے جواب نہ ہو پھر مر بھی جایئے تو کسو کو خبر نہ ہو ناسور چشم ہو مژہ خوں بار کیوں نہ ہو آئینہ ہو تو قابل دیدار کیوں نہ ہو ویسا ہے پھول فرض کیا حور کیوں نہ ہو کچھ ہم نے کی ہے ایسی ہی تقصیر کیوں نہ ہو عشق کیسا جس میں اتنی روسیاہی بھی نہ ہو کہ پھر موئے ہی بنے ہے اگر جدائی ہو پھر ایک بس ہے وہی گو ادھر خدائی ہو پھر برسوں تئیں پیارے جی سے نہیں جاتے ہو آتے ہو تمکین سے ایسے جیسے کہیں کو جاتے ہو آنکھ اٹھاکر جب دیکھے ہیں اوروں میں ہنستے جاتے ہو ہم نے کمر کو کھول رکھا ہے اپنی کمر تم کستے ہو یہ بات ایسی کیا ہے جس پر الجھ پڑے ہو ایسا کچھ کرکے چلو یاں کہ بہت یاد رہو ہم نے کردی ہے خبر تم کو خبردار رہو آخر ہوئی کہانی مری تم بھی سو رہو چکر مارو جیسے بگولا خاک اڑاتے آتے رہو پر ہے یہی ہمارے کیے کی سزا کہو یہ کیا روش ہے آؤ چلے ٹک ادھر کبھو تھا ہمارا بھی چمن میں اے صبا مسکن کبھو دل کا منکا ولے پھرا نہ کبھو ہوکے فقیر گلی میں کسو کی رنج اٹھاؤ جا بیٹھو اس ستم کشتہ پہ جو گذری جفا مت پوچھو ایک دم چھوڑ دو یوں ہی مجھے اب مت پوچھو ٹکڑے ٹکڑے ہوا جاتا ہے جگر مت پوچھو ہوا جی زلف و کاکل کے لیے جنجال مت پوچھو جی ہی جانے ہے آہ مت پوچھو آرزو ہے کہ تم ادھر دیکھو کیا ہے جھمک کفک کی رنگ حنا تو دیکھو پامال ہے سب خلق جہاں ناز تو دیکھو دل نہ رہے جو ہاتھ رکھے تو سماجت ات گت مت کریو دل بھر رہا ہے خوب ہی روئوں گا دیکھیو ہ اس چال پر چلے گی تلوار رفتہ رفتہ زمین میکدہ یک دست ہے گی آب زدہ ضائع ہے جیب و دامن جوں جنس آب دیدہ پر ہوسکے تو پیارے ٹک دل کا آشنا رہ خدا ہے تو کیا غم ہے دل شاد رہ شیخ کیوں مست ہوا ہے تو کہاں ہے شیشہ ہم بے گنہ اس کے ہیں گنہگار ہمیشہ رہتا ہے آب دیدہ یاں تا گلے ہمیشہ آزردہ دل کسو کا بیمار ہے ہمیشہ بالذات ہے جہاں میں وہ موجود ہر جگہ الجھاؤ تھا جو اس کی زلفوں سے سو گیا نہ کچھ سنی سوختگاں تم خبر پروانہ پھر چھپا خور سا اپنے نور سے وہ پر خود گم ایسا میں نہیں جو سہل مجھ کو پائے وہ اور مجلس میں جو رہیے دیکھ تو شرمائے وہ وہ نمک چھڑکے ہے مزہ ہے یہ ھ جیتے ہیں وے ہی لوگ جو تھے کچھ خدا کے ساتھ دیر و حرم میں ہو کہیں ہوہے خدا کے ساتھ جی ہی جاتے نظر آئے ہیں اس آزار کے ساتھ جان عزیز گئی ہوتی کاش اب کے سال بہار کے ساتھ لطف سے حرف و سخن تھے نگہ اک پیار کے ساتھ یعنی چشم شوق لگی رہتی ہے شگاف در کے ساتھ جان ہی جائے گی آخر کو اس ارمان کے ساتھ جانا ہی تھا ہمیں بھی بہار چمن کے ساتھ جان عزیز ابھی ہے مری آبرو کے ساتھ لے جاتے دل کو خاک میں اس آرزو کے ساتھ چاہ وہ ہے جو ہو نباہ کے ساتھ مری زیست ہے مہربانی کے ساتھ آشنایانہ نہ کی کوئی ادا اپنے ساتھ ہے آبرو فقیر کی شاہ ولا کے ہاتھ نہ تیر روے ترکش یوں چلا بیٹھ کج طبیعت جو مخالف ہیں انھوں سے جا سمجھ ہے مزاجوں میں اپنے سودا کچھ پانی ہوا ہے کچھ تو میرا جگر جلا کچھ تو بھی ہم غافلوں نے آ کے کیا کیا کیا کچھ درد و الم ہے کلفت و غم ہے رنج و بلا ہے کیا کیا کچھ ہم تک نہیں پہنچتی گل کی خبر عطر کچھ جاں بہ لب رہتے ہیں پر کہتے نہیں ہیں حال کچھ پر جی اسی کو اپنا ڈھونڈے ہے ڈھب نہیں کچھ صورت اک اعتبار سا ہے کچھ کچھ تو الم ہے دل کی جگہ اور غم ہے کچھ یک جرعہ ہمدم اور پلا پھر بہار دیکھ حال کچھ بھی تجھ میں ہے اے میر اپنا حال دیکھ ی کاہشیں کیا کیا اٹھا جاتا ہے جی کوئی دن ہی میں خاک سی یاں اڑا دی نہ اس دیار میں سمجھا کوئی زباں میری کبھو کے دن ہیں بڑے یاں کبھو کی رات بڑی کہ ساری رات وحشت ہی رہا کی ایک دل قطرئہ خوں تس پہ جفا کیا کیا کی جلے دھوپ میں یاں تلک ہم کہ تب کی آہ اس دشمن نے یہ عاشق نوازی خوب کی عقل گئی زاہد بدذات کی سجدہ اس آستاں کا کیا پھر وفات کی غموں نے آج کل سنیو وہ آبادی ہی غارت کی دھوم رہی ہے سر پر میرے رنج و عتاب و کلفت کی نگاہ چشم ادھر تونے کی قیامت کی اس تختے نے بھی اب کے قیامت بہار کی اللہ اللہ رے طبیعت کی روانی اس کی کسو سے کام نہیں رکھتی جنس آدم کی سب جیسے اڑ گئی ہے رنگینی گلستاں کی سر ہمارے ہیں گوے میداں کی یاں دکانیں ہیں کئی چاک گریبانوں کی نظر اس طرف بھی کبھو تھی کسو کی بلکہ دی جان اور آہ نہ کی اس عشق و محبت نے کیا خانہ خرابی کی اس دل کے تڑپنے نے کیا خانہ خرابی کی برسوں ہوئے ہیں گھر سے نکلے عشق نے خانہ خرابی کی اس ماہرو کے آگے کیا تاب مشتری کی صاحب ہی نے ہمارے یہ بندہ پروری کی کہ میری جان نے تن پر مرے گرانی کی میں نے مر مر کے زندگانی کی وصل کی رات میں لڑائی کی ہم نے بھی طبع آزمائی کی دھوم ہے پھر بہار آنے کی خبر کیوں پوچھتے ہیں مجھ سے لڑکے اس دوانے کی قسم کھائی ہو جس نے خواب میں بھی منھ دکھانے کی ہے سزا تجھ پہ یہ گستاخ نظر کرنے کی یعنی طاقت آزمائی ہوچکی صورت حال تجھے آپھی نظر آوے گی پژمردہ اس کلی کے تئیں بھی ہوا لگی اکت لے کے آخر ادا کیا نکالی مارا خراب کر کر تعزیر کیا نکالی کیا کہیے آج صبح عجب کچھ ہوا چلی اپنی جگہ بہار میں کنج قفس رہی اس بے وفا کو ہم سے کچھ الفت نہیں رہی یار کے تیر جان لے جا بھی اس لوٹتے دامن کو پاس آ کے اٹھانا بھی ہم نے کھینچی کمان رستم بھی ناز و غرور بہت ہے اس کا لطف نہیں ہے کم کم بھی بیٹھ جا چلنے ہار ہیں ہم بھی ہم چھوڑی مہر اس کی کاش اس کو ہووے کیں بھی یہ چوٹ ہی رہی ہے اس روسیاہ کو بھی ہے وہی بات جس میں ہو تہ بھی کیا ہی مست شراب ہے وہ بھی یاں کام جا چکا ہے اب اختیار سے بھی اس زمانے میں گئی ہے برکت غم سے بھی تسکیں نہیں ہے جان کو آب رواں سے بھی آئے بیٹھے اٹھ بھی گئے بیتاب ہوئے پھر آئے بھی میں نے ناخن بندی اپنی عشق میں کی ہے ابھی چاروں اور نگہ کرنے میں عالم عالم حسرت تھی کوٹے گئے ہیں سب اعضا یہ محبت تھی یا محنت تھی دیوانگی کسو کی بھی زنجیر پا نہ تھی دوستی مدعی جانی تھی کہ صورت آسماں کی دیکھ کر میں نے زمیں دیکھی یہ بلا آسمان پر آئی شاید کہ بہار آئی زنجیر نظر آئی ایسے گئے کہ ان کی پھر کچھ خبر نہ آئی جو اپنے اچھے جی کو ایسی بلا لگائی رشک سے جلتے ہیں یوسف کے خریدار کئی طرح اس میں مجنوں کی سب پا گئی یوں پھونک کرکے خاک مری سب اڑا گئی آنکھیں اس سے لگیں سو خواب گئی صحبت ہماری یار سے بے ڈھب بگڑ گئی دو دو بچن کے ہونے میں اک بات ہو گئی اس کی ہوا میں ہم پہ تو بیداد ہو گئی ظاہر کا پاس تھا سو مدارات بھی گئی بے قراری کو جانے تب کوئی شور طیور اٹھتا ہے ایسا جیسے اٹھے ہے بول کوئی بے غم کرو خوں ریزی خوں خواہ نہیں کوئی کچھ چیز مال ہو تو خریدار ہو کوئی آخر آخر جان دی یاروں نے یہ صحبت ہوئی جان امیدوار سے شرمندگی ہوئی اب کے جو آئے سفر سے خوب مہمانی ہوئی آخر اس اوباش نے مارا رہتی نہیں ہے آئی ہوئی سخت کدورت بیچ میں آئی صبح تلک نہ صفائی ہوئی ے کہ ہمراہ صبا ٹک سیر کرتے پھر ہوا ہوتے چشم بیمار کے دیکھ آنے کی رخصت دیجے امید عیادت پر بیمار رہا کیجے ہر سرحرف پہ فریاد نہایت کیجے آسماں کو سیاہ کر لیجے منزل کو عاشق اپنے مقصد کی جا نہ پہنچے اب وہ دل میں تاب نہیں جو لب تک آہ سرد کھنچے دل کو ہمارے چین دے آنکھوں کو خواب دے ہاتھ لگتے میلے ہوتے ہو لطافت ہائے رے کیا کہہ کے تجھ کو روویں یہ کیا کیا پیارے پھر جو دیکھا تو کچھ نہیں پیارے اب تلک نیم جان ہے پیارے گاڑ دیویں کاش مجھ کو بیچ میں در کے ترے رفتہ وارفتہ اس کا مر گذرے عاشق کہیں شتاب تو ہووے خدا کرے افسوس ہے جو عمر نہ میری وفا کرے ورنہ کیا جانے کیا خطاب کرے پسند اس کی ہے وہ جس طرح پسند کرے وہی جی مارے جس کو پیار کرے رنگ رو کو چمن نیاز کرے گوش زد اک دن ہوویں کہیں تو بے لطفی سے زبان کرے وہ جو بے رو اس طرف ٹک رو کرے محل رحم ہوویں کس طرح مظلوم ہم تیرے سبزی بہت لگی ہے منھ سے پیارے تیرے ہما کے آشیانے میں جلیں ہیں استخواں میرے اک نظر گل دیکھنے کے بھی ہمیں لالے پڑے یہی بات ہم چاہتے تھے خدا سے اٹھے ہے فتنہ ہر اک شوخ تر قیامت سے بڑی کلول ٹلی ہے جان پر سے برسے ہے عشق اپنے دیوار اور در سے نکلے نہ ناامیدی کیونکر مری نظر سے نہ نکلا کبھو عہدئہ مور سے گفتار اس کی کبر سے رفتار ناز سے کرنا سلوک خوب ہے اہل نیاز سے فراموش آپ کو کرنا محبت میں ہے یاد اس سے مٹھ بھیڑ اگر ہو گئی اس تیغ بکف سے کاہش مجھے جو ہے وہی ہوتی ہے شام سے ہے میر کام میرے تئیں اپنے کام سے دل نے پہلو تہی کیا ہم سے چھیڑ رکھی ہے تم نے کیا ہم سے پردہ اٹھا تو لڑیاں آنکھیں ہماری ہم سے مرا دامن بنے تو باندھ دو گل کے گریباں سے آئے ہیں پھر کے یارو اب کے خدا کے ہاں سے کیا کیا ان نے سلوک کیے ہیں شہر کے عزت داروں سے کہ بل دے باندھتے ہیں پیچ پگڑی کے بھی بالوں سے کہ تو دارو پیے ہے رات کو مل کر کمینوں سے آنکھیں ہماری لگ رہی ہیں آسمان سے خالی ہوا جہاں جو گئے ہم جہان سے وقت شکیب خوش کہ گیا درمیان سے آزردہ ہو نہ بلبل جاتے ہیں ہم چمن سے دل داغ ہورہا ہے چمن کے سبھاؤ سے نہال سبز جھومے ہیں گلستاں میں شرابی سے دل پر خوں کی اک گلابی سے مانا ہے حضور اس کے چراغ سحری سے اثبات ہوا جرم محبت کا اسی سے یہی ہے طور اس کا ساتھ اپنے خورد سالی سے اس گھر میں کوئی بھی نہ تھا شرمندہ ہوئے ہم جانے سے جس کو شبہ ہووے نہ ہرگز جی کے ہمارے جائے سے واں میں بھی ہوں مدام شہادت کے واسطے دیکھا نہ تم نے ایدھر صرفے سے اک نظر کے ہم تو بشر ہیں اس جا پر جلتے ہیں ملک کے بو گئی کچھ دماغ میں گل کے دل جو یہ ہے تو ہم آرام نہیں پانے کے ہائے رے ذوق دل لگانے کے مستی کی دیر میں قسم اقسام کر چکے وحشت بہت تھی طاقت دل ہائے کھو چکے اس کو جگر بھی شرط ہے جو تاب لا سکے کیا جی تدرو کا جو ترے آگے چل سکے دامن پکڑ کے یار کا جو ٹک نہ رو سکے لے خاک کی کوئی چٹکی اکسیر بنا دیں گے طیور ہی سے بَکا کریں گے گلوں کے آگے بُکا کریں گے خمیازہ کش جو ہوں گے ملنے کے کیا کریں گے ہر ہر قدم کے اوپر پتھر جگر کریں گے اس دل کے تئیں پیش کش تیر کریں گے تا صبح دوصد نالہ سر انجام کریں گے دشت میں آندھیاں چلا ویں گے جی میں ہے کہوں حال غریبانہ کہیں گے جی میں ہے کبھو حال غریبانہ کہیں گے بھوکوں مرتے ہیں کچھ اب یار بھی کھا بیٹھیں گے اس پردے ہی میں خوباں ہم کو سلا رکھیں گے ساتھ لیے داغ جگر جائیں گے قدر ہماری کچھ جانوگے دل کو کہیں جو لگاؤ گے ہمارے چہرے کے اوپر بھی رنگ تھا آگے کیا کیا نہال دیکھتے یاں پاؤں آ لگے اس لیے دیکھ رہا ہے کہ مجھے آگ لگے الم جو یہ ہے تو دردمندو کہاں تلک تم دوا کروگے پر ہم جو نہ ہوں گے تو بہت یاد کروگے عاشق بے حال دونوں ہاتھ سے دل تھام لے میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے چلتے اس کوچے سے ہم پر سینکڑوں پتھر چلے رہ سکے ہے تو تو رہ یاں ہم چلے جپ نام اس کا صبح کو تا نام بھی چلے ہر اک لخت جگر کے ساتھ سو زخم کہن نکلے یا اب کی وے ادائیں جو دل سے آہ نکلے اس گریباں ہی سے اب ہاتھ اٹھایا ہم نے ہمیں کھو دیا ہے تری جستجو نے کیا جانیے کیا ہو گا آخر کو خدا جانے الفت سے محبت سے مل بیٹھنا کیا جانے تکلف برطرف بے مہر ہے یاری کو کیا جانے گذرنا جان سے آساں بہت مشکل ہے کیا جانے پس ہم نہ برا مانیں تو کون برا مانے میں کشتہ ہوں انداز قاتل کا اپنے پر قلم ہاتھ جو آئی لکھے دفتر کتنے الٰہی اس بلاے ناگہاں پر بھی بلا آوے وگر قصہ کہوں اپنا تو سنتے اس کو خواب آوے کہ زندگی تو کروں جب تلک کہ یار آوے اللہ کی قدرت کا تماشا نظر آوے اس زندگی کرنے کو کہاں سے جگر آوے اغلال و سلاسل ٹک اپنی بھی ہلا جاوے آن رہے ہیں آج دموں پر کل تک کیونکے رہا جاوے یا ابر کوئی آوے اور آ کے برس جاوے سپہر نیلی کا یہ سائبان جل جاوے آہ کریے کہ ٹک ہوا ہووے دل کی معاملت ہے کیا کوئی خوار ہووے مر جائے ولے اس کو یہ آزار نہ ہووے جلوہ مری گور پر نہ ہووے مبادا عشق کی گرمی جگر میرا جلا دیوے خبر ہوتے ہی ہوتے دل جگر دونوں جلا دیوے کیا جانوں میں روئوں گا کیسا دریا چڑھتا آتا ہے عجب ہیں لوگ جو کہتے ہیں وہ ناساز آتا ہے جی میں کیا کیا خیال آتا ہے چلا ہے یار کے کوچے کو اور مجھ سے چھپاتا ہے وحشت پر جب آتا ہے تو جیسے بگولا جاتا ہے خدا شاہد ہے اپنا تو کلیجا ٹوٹ جاتا ہے شور سے جیسے بان جاتا ہے ہم کو یہ تیر ماہ جاتا ہے جان کو کوئی کھائے جاتا ہے کتنا جی عاشق بیتاب کا مرجاتا ہے میری توبہ کا جان ڈرتا ہے کوئی ایسا ستم دنیا میں اے صیاد کرتا ہے چین نہیں دیتا ہے ظالم جب تک عاشق مرتا ہے اشک کی سرخی زردی چہرہ کیا کیا رنگ بدلتا ہے کہ جاناں سے بھی جی ملا جانتا ہے خدا جانے تو ہم کو کیا جانتا ہے ہماری بیکسی پر زار باراں دیر روتا ہے دل کلیجے کے پار ہوتا ہے واں یہ عاجز مدام ہوتا ہے آج کل مجھ کو مار رہتا ہے درد بے اختیار اٹھتا ہے یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے ملک دل ان نے صاف لوٹا ہے ایک سنّاہٹا گذر جا ہے اس کتے نے کرکے دلیری صید حرم کو مارا ہے یا رنگ لالہ شوخ ترے رنگ پاں سا ہے توانائی کا منھ دیکھا نہیں ان نے کہ کیسا ہے دل تڑپا جو اس مہ رو بن سر کو ہمارے دھمکا ہے نہیں ہے دل کوئی دشمن بغل میں پالا ہے حال اگر ہے ایسا ہی تو جی سے جانا جانا ہے سفر کا بھی رہے خطرہ کہ اس منزل سے جانا ہے بے طاقتی دل کو بھی مقدور ہوا ہے جوں توں اپنا کیا نباہا ہے جگر سب کھا گیا اب کیا رہا ہے کیا ناز کر رہے ہو اب ہم میں کیا رہا ہے پھر دل ستم رسیدہ اک ظلم کر رہا ہے میداں بزن گہوں کے کشتوں سے بھر رہا ہے دکھلائی دے جہاں تک میدان ہورہا ہے ابر بہاری وادی سے اٹھ کر آبادی پر آیا ہے دے بھی مے ابر زور آیا ہے ٹھنڈا دل اب ہے ایسا جیسے بجھا دیا ہے دل ساری رات جیسے کوئی ملا کیا ہے چپ ہیں کچھ کہہ سکتے نہیں پر جی میں ہمارے کیا کیا ہے دل ہاتھ جو نہ آوے اس کا خیال کیا ہے دخل عقل اس مقام میں کیا ہے اس سادہ رو کے جی میں کیا جانیے کہ کیا ہے پر اس کے جی میں ہم سے کیا جانیے کہ کیا ہے اک آگ سی رہے ہے کیا جانیے کہ کیا ہے تب دل کے تئیں خوگر اندوہ کیا ہے دروں میں آگ اک لگا گیا ہے بروں کو یکسر جلا گیا ہے رخصت میں لگ گلے سے چھاتی جلا گیا ہے ہماری خاک پر بھی رو گیا ہے ملک ان ستم زدوں کا سب پاک ہو گیا ہے دل داغ گشتہ کباب ہے جگر گداختہ آب ہے دریاے موج خیز جہاں کا سراب ہے رنج و محنت کمال راحت ہے دریا دریا روتا ہوں میں صحرا صحرا وحشت ہے جس سے پیار رکھے ہے کچھ یہ اس کے سر پر شامت ہے مسلماں بھی خدا لگتی نہیں کہتے قیامت ہے بیمار مرا گراں بہت ہے رنج و حرماں کی یہ بدایت ہے رنگیلی نپٹ اس جواں کی طرح ہے آنکھیں اگر یہی ہیں تو دریا بھی گرد ہے گلے سے ہمارے لگو عید ہے پر جانیں جو گئی ہیں سو رہ پر غبار ہے کچھ یار کے آنے کی مگر گرم خبر ہے ٹک گوش رکھیو ایدھر ساتھ اس کے کچھ خبر ہے کہ بیتاب دل کی بنا صبر ہے غم حرماں کا کب تک کھینچیں شاد کرو تو بہتر ہے پہ فرط شوق سے مجھ کو ملال خاطر ہے دل اپنا تو بجھا سا دیا ہے جان چراغ مضطر ہے پھر چاہ جس کی مطلق ہے ہی نہیں ہنر ہے یاں تلف ہوتا ہے عالم واں سو عالم اور ہے تب آناً فآناً سماں اور ہے ہر گلی کوچے میں تیرا اک دعا گو اور ہے زمیں سخت ہے آسماں دور ہے کیا قیامت کا قیامت شور ہے یاں سلیماں کے مقابل مور ہے جوانی دوانی ہے مشہور ہے دل خرابہ جیسے دلی شہر ہے گھر ہے کسو گوشے میں تو مکڑی کا سا گھر ہے سو نہ یاں شمشیر نے زنجیر ہے سفک دم میں میرے اب کیا دیر ہے سلطان عصر تیری گلی کا فقیر ہے کہ عالم جوان سیہ پوش ہے تیرا بیمار آج تو خوش ہے عجب مرحلہ ہم کو درپیش ہے پھولا پھرے ہے مرغ چمن باغ باغ ہے ہم نہ سمجھے بڑا تاسف ہے زندگانی اب تو کرنا شاق ہے اس دل جلے کے تاب کے لانے کو عشق ہے چاک دل پلکوں سے مت سی کہ رفو نازک ہے ّسینکڑوں ہم خوں گرفتہ ہیں وہ قاتل ایک ہے دل کے سے نالوں کا ان پردوں میں کچھ آہنگ ہے جو ہے سو کوئی دم کو فیصل ہے میری خوں ریزی ہی کا مائل ہے تصویر چیں کی روبرو اس کے ذلیل ہے یہ بھی کوئی لطف بے ہنگام ہے تیر و نشتر سے کیا پلک کم ہے جو میں ہر اک مژہ دیکھوں کہ یہ تر ہے کہ یہ نم ہے پات ہرے ہیں پھول کھلے ہیں کم کم باد و باراں ہے ٹہنی جو زرد بھی ہے سو شاخ زعفراں ہے سواد بر مجنوں تو چراگاہ غزالاں ہے کہ یہ پیرانہ سر جاہل جواں ہے نہ شب کو مہلت نہ دن کو فرصت دمادم آنکھوں سے خوں رواں ہے بے خود ہیں اس کی آنکھیں ان کو خبر کہاں ہے ہوں میں چراغ کشتہ باد سحر کہاں ہے تس پہ یہ جان بلب آمدہ بھی محزوں ہے بے موقع یاں آہ و فغاں ہے بے اثری زاری میں ہے سو کوئی دن جو ہے تو پھر سالہا نہیں ہے ہشیاری کے برابر کوئی نشہ نہیں ہے آ بوالہوس گر ذوق ہے یہ گو ہے یہ میدان ہے سنا کریے کہ یہ بھی اک سخن ہے اس میں بھی جو سوچیے سخن ہے نالان و مضطرب پس دیوار کون ہے شمع مزار میر بجز آہ کون ہے وہ ہی ناز و عتاب ہے سو ہے آب ہو جائے کہ یہ دل خلۂ پہلو ہے ٹک آپ بھی تو آیئے یاں زور باؤ ہے گل اک دل ہے جس میں تری چاہ ہے تیرا کوچہ ہم سے تو کہہ کس کی بسمل گاہ ہے دود جگر سے میرے یہ چھت سب سیاہ ہے کیا بدن کا رنگ ہے تہ جس کی پیراہن پہ ہے ایکوں کو جا نہیں ہے دنیا عجب جگہ ہے فقیروں کی اللہ اللہ ہے آنکھیں نہ کھولوں تجھ بن مقدور ہے تو یہ ہے سہل نہیں ہے جی کا ڈھہنا کیسی خانہ خرابی ہے زاہد جو صفت تجھ میں ہے سو زن جلبی ہے کہ شکل صبح مری سب کو بھول جاتی ہے دن گذر جائیں ہیں پر بات چلی جاتی ہے عرش پر برچھیاں چلاتی ہے سپاس ایزد کے کرجن نے کہ یہ ڈالی نوادی ہے جی چکا وہ کہ یہ بے طرح کی بیماری ہے ہزار سابقوں سے سابق ایک یاری ہے سب لوگوں میں ہیں لاگیں یاں محض فقیری ہے وہ طبع تو نازک ہے کہانی یہ بڑی ہے ہر شاخ گل چمن میں بھیچک ہوئی کھڑی ہے طاقت دل کی تمام ہوئی ہے جی کی چال کڈھب سی ہے یہ نمائش سراب کی سی ہے چال ایسی چلا جس پر تلوار چلا کی ہے کیا محبت نے دشمنی کی ہے کیا تازہ کوئی گل نے اب شاخ نکالی ہے ہزار حیف کمینوں کا چرخ حامی ہے معشوق بھی ہمارا محبوب آدمی ہے عمر رفتہ کی یہ نشانی ہے ہرچند کہ گل شگفتہ پیشانی ہے قرباں ترے ہر عضو پہ نازک بدنی ہے قصہ ہمارا اس کا یارو شنیدنی ہے پر یہ کہا نہ ظالم اس کی نہیں سہی ہے سماجت اتنی بھی سب سے کوئی خدا بھی ہے یعنی خط تو خوب ہے صورت بھی ہے سدھ اپنی نہیں ہم کو کچھ تم کو خبر بھی ہے طوفان سا شہروں میں ہے اک شور دریا پر بھی ہے بتاں دلوں میں تمھارے خدا کا ڈر بھی ہے یار گیا مجلس سے دیکھیں کس کس کی اب آئی ہے بو کہ پھر کر بہار آئی ہے عشق ہے فقر ہے جدائی ہے ہم نے کیا چوٹ دل پہ کھائی ہے شرم انکھڑیوں میں جس کی عیاری ہو گئی ہے کبھو قدرداں عشق پیدا کرے ہے گاہے بکا کرے ہے گاہے دعا کرے ہے اب دیکھوں مجھے کس کا گرفتار کرے ہے یہی بے طاقتی خوں گشتہ دل کو میرے کد سے ہے کیا کہوں میں آہ مجھ کو کام کس پتھر سے ہے کاہش اک روز مجھ کو شام سے ہے جیسے لوں چلتی مرے منھ سے ہوا نکلے ہے باؤ سے اک دماغ نکلے ہے جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے پردے میں چشم ڈھکنے دیوار و در بنے ہے رومال دو دو دن تک جوں ابرتر رہے ہے جو چاہنے والے کا ہر طور برا چاہے جی رات دن جنھوں کے کھپیں ان میں کیا رہے ہو مختلط جو ان سے تو ایمان کیا رہے بات رہ جائے نہ یہ دن رہیں نے رات رہے بھول تو ہم کو گئے ہو یہ تمھیں یاد رہے کہ دیکھا جب تجھے تب جی کو مار مار رہے دور سے دیکھ لیا اس کو تو جی مار رہے رات دن ہم امیدوار رہے جب سے کلاہ سر پہ رکھی در بہ در رہے آخر کو پھوٹ پھوٹ بہے قہر کر رہے ایسی طرح روزگار دیکھیے کب تک رہے سو یوں رہے کہ جیسے کوئی میہماں رہے بھلا کب تلک بیقراری رہے ایک ایک سخت بات پہ برسوں اڑے رہے کچھ ٹھہرتی ہی نہیں کوئی کہے تو کیا کہے دو دن جوں توں جیتے رہے سو مرنے ہی کے مہیا تھے ٹکڑے پہ جان دیتے تھے سارے فقیر تھے غمزدوں اندوہ گینوں ظلم کے ماروں میں تھے وہ اسکندر گیا یاں سے تو دونوں ہاتھ خالی تھے یہ جان سے گئے سب بیمار ایسے ہی تھے بوسۂ کنج لب سے پھر بھی ذائقے اپنے بناتے تھے روش آب رواں پھیلے پھرا کرتے تھے آسماں تک سیاہ کرتے تھے اور نہ تھی توفیق تمھیں تو بوسے کی ہمت رکھتے تھے دل نے صدمے بڑے اٹھائے تھے پیشانی پہ دے قشقہ زنار پہن بیٹھے جو چاہیں سو یوں کہہ لیں لوگ اپنی جگہ بیٹھے اس خصم جاں کے در پر تکیہ بنا کے بیٹھے مرنا پڑا ضرور ترے غم میں اب مجھے ہجر کی کرنی پڑی ہے نازبرداری مجھے گم کیا خود کے تیں خدا سمجھے صید بندوں نے جال ڈال رکھے ان ہی دیدئہ نم دیدوں سے کیا کیا ہم نے ستم دیکھے آئے جو ہم چمن میں ہوکر اسیر آئے چھانہہ میں جاکے ببولوں کی ہم عشق و جنوں کو رو آئے یہ رات نہیں وہ جو کہانی میں گذر جائے بھیچک کوئی رہ جائے کوئی جی سے گذر جائے پنجہ خورشید کا گہا بھی جائے ہستی کے تئیں ہوتے عدم دیکھتے ہیں ہائے بیتاب کر کے خاک میں ہم کو ملا گئے اکثر ہمارے ساتھ کے بیمار مر گئے تعب ایسی گذری کہ مر مر گئے بس اے تب فراق کہ گرمی میں مر گئے کارواں جاتا رہا ہم خواب ہی میں مر گئے سب خراشوں ہی سے جبہے بھر گئے دل ساکنان باغ کے تجھ سے اٹک گئے سو کاروان مصر سے کنعاں تلک گئے شاخوں سمیت پھول نہالوں کے جھک گئے کیسے کیسے ہائے اپنے دیکھتے موسم گئے آہ و فغاں کے طور سے میرے لوگ مجھے پہچان گئے کیا آرزو تھی ہم کو کہ بیمار ہو گئے آخر کو روتے روتے پریشاں ہو بہ گئے اس قافلے میں ہم بھی تھے افسوس رہ گئے کارواں جاتا رہا ہم ہائے سوتے رہ گئے عاشق اس کی قامت کے بالا بالا مارے گئے بازخواہ خوں نہ تھا مارے گئے مارے گئے تو میاں مجنوں بیاباں سے گئے سو ہی بات آئی اٹھے اس پاس سے جاں سے گئے سب یہیں رہ گئے کہاں سے گئے چپکے باتیں اٹھائے گئے سر گاڑے ووہیں آئے گئے پامال ہو گئے تو نہ جانا کہ کیا ہوئے بے کس ہوئے بے بس ہوئے بے کل ہوئے بے گت ہوئے ہم تو اے ہم نفساں دیر خبردار ہوئے یعنی آنسو پی پی گئے سو زخم جگر ناسور ہوئے سو ہم اس کے نشان تیر ہوئے اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے سو گریبان مرے ہاتھ سے یاں چاک ہوئے عاشق کہاں ہوئے کہ گنہگار ہم ہوئے کتنے اک اشک ہوئے جمع کہ طوفان ہوئے نکہت گل سے آشنا نہ ہوئے جان کو اپنی گل مہتاب انگارے ہوئے روزے رکھے غریبوں نے تو دن بڑے ہوئے بات مخفی کہتے ہو غصے سے جھنجھلائے ہوئے پھرتے ہیں ہم بھی ہاتھ میں سر کو لیے ہوئے زندگانی حیف ہے مر جایئے اب کہو اس شہر نا پرساں سے کیدھر جایئے پر نہ اتنا بھی کہ ڈوبے شہر کم کم رویئے بے دید و بے مروت و نا آشنا ہیں یے جوں ہم جلا کریں ہیں بھلا جلتے کب ہیں یے شاید اس کے بھی دل میں جا کریے مداوا سے مرض گذرا کہو اب میر کیا کریے تری تلاش میں اک دل کدھر کدھر کریے تم نے حقوق دوستی کے سب ادا کیے ملتجی ناچار ہوا چاہیے Rate this:اسے شیئر کریں:Twitterفیس بکاسے پسند کریں:پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔