دیوانِ اول دیوانِ اول خورشید میں بھی اس ہی کا ذرہ ظہور تھا آنکھیں تو کہیں تھیں دل غم دیدہ کہیں تھا یاددہ ہے وہ کسو چشم کی گریانی کا دامن تر کا مرے دریا ہی کا سا پھیر تھا چھوڑا وفا کو ان نے مروت کو کیا ہوا کہ ہمسائگاں پر ترحم کیا دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا جمال یار نے منھ اس کا خوب لال کیا وابستہ ترے مو کا پریشان رہے گا ہم خاک کے آسودوں کو آرام نہ آیا کل اس پہ یہیں شور ہے پھر نوحہ گری کا حیرتی ہے یہ آئینہ کس کا سنبل چمن کا مفت میں پامال ہو گیا جیتے رہے تھے کیوں ہم جو یہ عذاب دیکھا آپڑی یہ ایسی چنگاری کہ پیراہن جلا شب کو القصہ عجب قصۂ جانکاہ سنا اپنی زنجیر پا ہی کا غل تھا گل اک چمن میں دیدئہ بے نور ہو گیا پتھر تلے کا ہاتھ ہی اپنا نکالتا برقع سے گر نکلا کہیں چہرہ ترا مہتاب سا نکلا ہی نہ جی ورنہ کانٹا سا نکل جاتا تا بہ روح الامیں شکار ہوا القصہ میر کو ہم بے اختیار پایا اس دل نے ہم کو آخر یوں خاک میں ملایا القصہ رفتہ رفتہ دشمن ہوا ہے جاں کا دل ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا جس کے ہر ٹکڑے میں ہو پیوست پیکاں تیر کا آیا شب فراق تھی یا روز جنگ تھا مانند آئینے کے مرے گھر میں آب تھا یا تو بیگانے ہی رہیے ہوجیے یا آشنا فرق نکلا بہت جو باس کیا اک مغبچہ اتار کے عمامہ لے گیا غافل نہ رہ کہ قافلہ اک بار جائے گا قافلہ جاتا رہا میں صبح ہوتے سو گیا خاک افتادہ ہوں میں بھی اک فقیر اللہ کا جس کوچے میں وہ بت صد بدنام نہیں رکھتا گل باغ میں گلے کا مرے ہار ہو گیا جگر مرغ جان سے نکلا راتوں کو روتے روتے ہی جوں شمع گل گیا ہوا نہ گور گڑھا ان ستم کے ماروں کا خون ہو بہ سب آپھی گیا عشق حسن و جمال کیا خانہ خراب ہو جیو اس دل کی چاہ کا جھانکنا تاکنا کبھو نہ گیا ایک تجھ کو ہزار میں دیکھا کبھو درد تھا کبھو داغ تھا کبھو زخم تھا کبھو وار تھا موم سمجھے تھے ترے دل کو سو پتھر نکلا لگے ہو خون بہت کرنے بے گناہوں کا اے کبک پھر بحال بھی آیا نہ جائے گا ہر گام پہ جس میں سر نہ ہو گا یا روز اٹھ کے سر کو پھرایا تو کیا ہوا چھوڑ لذت کے تئیں لے تو فقیری کا مزا رات کو سینہ بہت کوٹا گیا ہر گلی شہر کی یاں کوچۂ رسوائی تھا دشمن کے بھی دشمن پر ایسا نہ ہوا ہو گا اس جنس کا یاں ہم نے خریدار نہ پایا کبھی اس راہ سے نکلا تو تجھے گھور گیا کیا کہوں اے ہم نشیں میں تجھ سے حاصل دل گیا دل نے اب زور بے قرار کیا مرغ خوش خواں عزیز کوئی تھا مستی میں میری تھا یاں اک شور اور شرابا پھر اس پہ ظلم یہ ہے کچھ کہا نہیں جاتا پھر ان دنوں میں دیدئہ خونبار نم ہوا جو کوئی دم ہے تو افسوس ہے جوانی کا اس آستاں پہ مری خاک سے غبار رہا اس کی دیوار کا سر سے مرے سایہ نہ گیا گھر جلا سامنے پر ہم سے بجھایا نہ گیا ہم کو بن دوش ہوا باغ سے لایا نہ گیا مشبک کر گیا ہے تن ہمارا افسانۂ محبت مشہور ہے ہمارا پر اپنے جام میں تجھ بن لہو تھا آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا دس دن رہے جہان میں ہم سو رہا دہا اک دل غمخوار رکھتے تھے سو گلشن میں رہا اس خانماں خراب نے آنکھوں میں گھر کیا بس گیا میں جان سے اب اس سے یہ جانا گیا سب کہیں گے یہ کہ کیا اک نیم جاں مارا گیا بکیں گے سر اور کم خریدار ہو گا لہو آتا ہے جب نہیں آتا جیتا ہوں تو تجھی میں یہ دل لگا رہے گا تہ خاک بھی خاک آرام ہو گا پر مرے جی ہی کے خیال پڑا کہ کاروان کا کنعاں کے جی نکال لیا اس شوخ کم نما کا نت انتظار کھینچا مہکتا ہو نپٹ جو پھول سی دارو سے میخانا اب کے شرط وفا بجا لایا ہو جو زخمی کبھو برہم زدن مژگاں کا ٹکڑا مرا جگر ہے کہو سنگ سخت کا دس دن جو ہے یہ مہلت سو یاں دہا رہے گا مآل اپنا ترے غم میں خدا جانے کہ کیا ہو گا پر مطلقاً کہیں ہم اس کا نشاں نہ پایا اس روے دل فروز کا سب میں ظہور تھا روئے نہ ہم کبھو ٹک دامن پکڑ کسو کا دل کے سو ٹکڑے مرے پر سبھی نالاں یک جا ستم شریک ترا ناز ہے زمانے کا شام سے تا صبح دم بالیں پہ سر یک جا نہ تھا نالہ مرا چمن کی دیوار تک نہ پہنچا قسمے کہ عشق جی سے مرے تاب لے گیا ایک دن یوں ہی جی سے جایئے گا لے یار مرے سلمہ اللہ تعالیٰ اک وقت میں یہ دیدہ بھی طوفان رو چکا ہے ختم اس آبلے پر سیر و سفر ہمارا دل کے جانے کا نہایت غم رہا دیکھتے ہی آنکھوں میں گھر کر گیا یاں شرم سے عرق میں ڈوب آفتاب نکلا اک ابر واں سے اٹھ کر بے اختیار رویا یہ کون شگوفہ سا چمن زار میں لایا کچھ مزاج ان دنوں مکدر تھا بوسہ بھی لیں تو کیا ہے ایمان ہے ہمارا کون سے درد و ستم کا یہ طرفدار نہ تھا آخر کو جستجو نے تری مجھ کو کھو دیا ناچار عاشقوں کو رخصت کے پان دے گا دیکھا جو خوب تو ہے دنیا عجب تماشا آج دیکھا تو باغ بن دیکھا طپش کی یاں تئیں دل نے کہ درد شانہ ہوا رو آشیان طائر رنگ پریدہ تھا میرا دل خواہ جو کچھ تھا وہ کبھو یاں نہ ہوا گو کہ مرے ہی خون کی دست گرفتہ ہو حنا دوش ہوا پہ رنگ گل و یاسمن گیا اشک فقط کا جھمکا آنکھوں سے لگ رہا تھا کہ سنگ محتسب سے پاے خم دست سبو ٹوٹا عاشق کا اپنے آخری دیدار دیکھنا رواج اس ملک میں ہے درد و داغ و رنج و کلفت کا تو ہمسایہ کاہے کو سوتا رہے گا گلابی روتی تھی واں جام ہنس ہنس کر چھلکتا تھا کیا گلہ کیجے غرض اب وہ زمانہ ہی گیا اب جس جگہ کہ داغ ہے یاں آگے درد تھا یہ ویراں آشیانے دیکھنے کو ایک میں چھوٹا دیکھا تو اور رنگ ہے سارے جہان کا مئے گلگوں کا شیشہ ہچکیاں لے لے کے رووے گا صنم خانہ ہی یاں اے شیخ تونے کیوں نہ بنوایا ننگ ہے نام رہائی تری صیادی کا غرض اس شوخ نے بھی کام کیا ہوں دوانہ ترے سگ کو کا تہ کر گیا مصلیٰ عزلت گزیدگاں کا مجنوں بھی اس کی موج میں مدت بہا پھرا سو ہو چلا ہوں پیشتر از صبح سرد سا پر اتنا بھی ظالم نہ رسوا ہوا تھا میں نے یہ غنچۂ تصویر صبا کو سونپا جگر پہ زخم ہے اس کی زباں درازی کا ان چشم سیاہوں نے بہتوں کو سلا رکھا جب یہ کہتا ہوں تو کہتا ہے کہ ہوں ہوجائے گا دل جو عقدہ تھا سخت وا نہ ہوا دیکھنا وہ دل میں جگہ کر گیا اس بائو نے ہمیں تو دیا سا بجھا دیا گل دستہ دستہ جس کو چراغی دیا کیا مگر اک غم ترا اے شوخ بے کس ہوکے روئے گا کس طرح آفتاب نکلے گا شعلۂ آہ دل گرم محبت سے اٹھا چٹکیوں میں رقیب اڑ جاتا اڑتا ہے ابھی رنگ گل باغ جہاں کا بے درد سر بھی صبح تلک سر دھنا کیا لب ساغر پہ منھ رکھ رکھ کے ہر شیشہ بہکتا تھا دماغ کس کو ہے محشر کی دادخواہی کا وحشت میں جو سیا سو کہیں کا کہیں سیا رام صیاد کا ہوتے ہی خدا یاد آیا تو کہیو جب چلا ہوں میں تب اس کا جی نکلتا تھا دل نام قطرہ خون یہ ناحق تلف ہوا بہار جاتی رہی دیکھنے چمن نہ دیا مشتاق منھ مرا ہے اسی رنگ زرد کا ملے گا نیند بھر تب مجھ کو سونا ہوکر فقیر صبر مری گور پر گیا رکھے ہے شوق اگر رحمت الٰہی کا اس دو روزہ زیست میں ہم پر بھی کیا کیا ہو گیا نرگس کا جس سے رنگ شکستہ بھی اڑ چلا گویا چراغ وقف ہوں میں اس دیار کا پر بے مزہ ہے مزاج میرا ایک دو دم زار باراں رو گیا کیا آب حیواں کو پانی سے پتلا الغرض اس پہ دانت ہے سب کا کوہکن نے بھی سر کو پھوڑا تھا اس تشنہ کام نے تو پانی بھی پھر نہ مانگا صحرا میں رفتہ رفتہ کانٹوں نے سر اٹھایا گل منھ نہ کھولتا تھا بلبل نہ بولتا تھا سو جاتے ہیں ولیکن بخت کنار ہر شب ٹپکا کرے ہے آنکھوں سے خونناب روز و شب پڑتی رہی ہے زور سے شبنم تمام شب تو کون قمریوں کے چواتا دہن میں آب ایک گردش میں تری چشم سیہ کے سب خراب عرق شرم میں گیا ہے ڈوب ہوئے آدم کو بھی بہشت نصیب کیا فکر کروں میں کہ کسو ڈھب ہو ملاقات تیر تو نکلا مرے سینے سے لیکن جاں سمیت ہم آنکھوں میں لے گئے بسر رات مایوس ہوں میں بھی کہ ہوں بیمار محبت رونا آتا ہے مجھے ہر سحر و شام بہت کہیے ہووے جو کچھ بھی ڈھب کی بات تو بھی مری دعا سے ملتی نہیں اجابت کسو کی زلف ڈھونڈی مو بہ مو کا کل کو سب لٹ لٹ شاید بگڑ گئی ہے کچھ اس بے وفا سے آج ہوں جو رحمت کے سزاواروں کے بیچ بھیج دے کیوں نہ زلیخا اسے کنعان کے بیچ دن نہ پھر جائیں گے عشاق کے اک رات کے بیچ باز خواہ خوں ہے میرا گو اسی بستی کے بیچ رہنے لگا ہے دل کو اب آزار بے طرح کرتا ہے چرخ مجھ سے نئے یار ایک طرح ان دنوں کچھ ہے مہرباں وہ شوخ یا بگولا جو کوئی سر کھینچے ہے صحرا نورد ابھریں گے عشق دل سے ترے راز میرے بعد آخرکار کیا کہا قاصد اڑتی ہے خاک میری باد صبا ہے شاہد ہے تو کس آفریدہ کے مانند چمن کی صبح کوئی دم کو شام ہے صیاد رکھ کے تیشہ کہے ہے یا استاد اے آہ پھر اثر تو ہے برچھی کی چوٹ پر پھر دیکھنا ادھر کو آنکھیں ملا ملاکر نہیں اس قافلے میں اہل دل ضبط نفس بہتر اے انتظار تجھ کو کسی کا ہو انتظار اگرچہ جان جاتی ہے چلی لیکن تغافل کر یک سینہ خنجر سینکڑوں یک جان و آزار اس قدر کہ تلواریں چلیں ابرو کی چیں پر کام آئے فراق میں اے یار جلا ہی پڑا ہے ہمارا تو گھر بار جاتے رہیں گے ہم بھی گریبان پھاڑ کر جاتے ہیں جی سے کس قدر آزار دیکھ کر ٹھہرے ہے آرسی بھی دانتوں زمیں پکڑ کر پر ہوسکے جو پیارے دل میں بھی ٹک جگہ کر حال ہے اور قال ہے کچھ اور ضبط گریہ سے پڑ گئے ناسور غیرت سے رہ گئے ہم یک سو کباب ہوکر خاطر سے ہی مجھ مست کی تائید دور جام کر ہاتھ سے جائے گا سررشتۂ کار آخرکار موتی گویا جڑے ہیں مینے پر دستۂ داغ و فوج غم لے کر بگلا شکار ہووے تو لگتے ہیں ہاتھ پر زخم پڑ پڑ گیا مرے پا پر انجان اتنے کیوں ہوئے جاتے ہو جان کر جی لے گئے یہ کانٹے دل میں کھٹک کھٹک کر ہوئے پانی پانی در شاہوار رہ گیا ہوں چراغ سا بجھ کر پلکوں کی صف سے بھیڑیں گئیں منھ کو موڑ موڑ بسمل پڑی ہے چرخ پہ میری دعا ہنوز ہے گریبان پارہ پارہ ہنوز تر ہیں سب سرکے لہو سے در و دیوار ہنوز ہوچکے حشر میں پھرتا ہوں جگر چاک ہنوز ہیں مژہ دستور سابق ہی یہ میری نم ہنوز اس ملک میں ہماری ہے یہ چشم تر ہی بس آ کے ڈوبی جاتی ہے کشتی مری ساحل کے پاس آہ افسوس صد ہزار افسوس کس کا ہے راز بحر میں یارب کہ یہ ہیں جوش اک مصیبت ہے میرے تیں درپیش کیوں نہ القاص لایحب القاص چشم نم دیدہ سے عاشق کی سدا جاری ہے فیض ہوتے ہیں یہ لوگ بھی کتنے پریشاں اختلاط تجھ سے ملتے ہیں رہتے ہیں محظوظ اس بھبھوکے سے کو بیٹھا دیکھ جل جاتی ہے شمع واہ وا رے آتش جاں سوز پھر تاثیر شمع کہاں دماغ ہمیں اس قدر دروغ دروغ جائیں گے گر وفا کرے گا دماغ راستی یہ ہے کہ وعدے ہیں تمھارے سب خلاف ہر خوں گرفتہ جائے ہے جلاد کی طرف تو مائل نہ ہو پھر گہر کی طرف شیخ کیا جانے تو کہ کیا ہے عشق چھاتی پہ بعد مرگ بھی دل جم ہے زیر خاک آشوب نالہ اب تو پہنچا ہے لامکاں تک سوکھا نہیں لوہو در و دیوار سے اب تک جس کی لے دام سے تاگوش گل آواز ہے ایک کر جائوں گا سفر ہی میں دنیا سے تب تلک دوری رہ ہے راہ بر نزدیک کہ پہنچا شمع ساں داغ اب جگر تک ہاتھ پہنچا نہ پاے قاتل تک طوفاں ہے میرے اشک ندامت سے یاں تلک رسوائیاں گئی ہیں عقیق یمن تلک تب سے لٹتی ہے ہند چاروں دانگ چھانی چمن کی خاک نہ تھا نقش پاے گل یک مشت پر پڑے ہیں گلشن میں جاے بلبل پرواز خواب ہو گئی ہے بال و پر خیال ہیں پریشاں چمن میں کچھ پر و بال اے رشک حور آدمیوں کی سی چال چل صبح گہ اٹھتے ہی عالم کو ڈبوویں گے کل لگتا نہیں ہے دل کا خریدار آج کل مثل مشہور ہے یہ تو کہ ہے دنیا میں دلبر دل آزردہ دل ستم زدہ دل بے قرار دل وہ بھی ہے گا گلاب کا سا پھول سارے گلبن تھے تو کہے بے اصل تجھ کو بالیں پر نہ دیکھا کھولی سو سو بار چشم گل کب رکھے ہے ٹکڑے جگر اس قدر کہ ہم ایسا نہ ہو کہ میرے جی کا ضرر کرو تم پر مل چلا کرو بھی کسو خستہ جاں سے تم نزدیک اپنے کب کے ہوئے ہیں ہلاک ہم گئے گذرے ہیں آخر ایسے کیا ہم گئے گذرے خضر علیہ السلام لیک لگ چلنے میں بلا ہیں ہم ہمیشہ آگ ہی برسے ہے یاں ہوا ہے گرم لڑنے لگے ہیں ہجر میں اس کے ہوا سے ہم ایک مدت سے وہ مزاج نہیں مجنوں کی محنتیں سب میں خاک میں ملائوں داغ جیسے چراغ جلتے ہیں جاتا ہے جی چلا ہی مرا اضطراب میں دامن ہے منھ پہ ابر نمط صبح و شام یاں نہ ہوا کہ صبح ہووے شب تیرہ روزگاراں تا نظر کام کرے رو بقفا جاتے ہیں جان و ایمان و محبت کو دعا کرتے ہیں ہر چند کہ جلتا ہوں پہ سرگرم وفا ہوں وے روگ اپنے جی کو ناحق بساہتے ہیں تو بوالہوس نہ کبھو چشم کو سیاہ کریں اکثر نہیں تو تجھ کو میں گاہ گاہ دیکھوں جاتی ہیں لامکاں کو دل شب کی زاریاں ان صورتوں کو صرف کرے خاک و خشت میں رنگ رو جس کے کبھو منھ نہ چڑھا میں ہی ہوں یہ وہ نہیں متاع کہ ہو ہر دکان میں بندھی مٹھی چلا جا اس چمن میں اس راہ میں وے جیسے انجان نکلتے ہیں کہ گڑے ہوئے پھر اکھڑیں دل چاک دردمنداں اس غم کدے میں آہ دل خوش کہیں نہیں اس ریختے کو ورنہ ہم خوب کرچکے ہیں ہو گر شریف مکہ مسلمان ہی نہیں اپنے سواے کس کو موجود جانتے ہیں دیکھیں تو تیری کب تک یہ بد شرابیاں ہیں مذکور ہوچکا ہے مرا حال ہر کہیں یعنی تمھاری ہم سے وے آنکھیں نہیں رہیں ہر دم جگروں میں کچھ کانٹے سے کھٹکتے ہیں پر ایک حیلہ سازی ہے اس دست گاہ میں کہا کہ ایسے تو میں مفت مار لایا ہوں بھلا ہوا کہ تری سب برائیاں دیکھیں سرو و قمری شکار ہوتے ہیں سارے تیرا خیال رکھتے ہیں اس میں حیراں ہوں بہت کس کس کا میں ماتم کروں رگ ابر تھا تارتارگریباں طالعوں نے صبح کر دکھلائیاں اب ہم نے بھی کسو سے آنکھیں لڑائیاں ہیں اک آگ مرے دل میں ہے جو شعلہ فشاں ہوں نہ پوچھو جو کچھ رنگ ہم دیکھتے ہیں وہ کوئی اور ہیں جو اعتبار پاتے ہیں محتسب کو کباب کرتا ہوں گو رقیباں کچھ اور گاتے ہیں پھر آپھی آپ سوچ کے کہتا ہوں کیا کہوں قیامت کو مگر عرصے میں آویں تمھارے ساتھ گرفتار حال اپنا ہوں تم بھی تو ایک رات سنو یہ کہانیاں حسن قبول کیا ہو مناجات کے تئیں کنواں اندھا ہوا یوسفؑ کے غم میں کس کے ہوں کس سے کہیں کس کنے فریاد کریں سر مار مار یعنی اب ہم بھی سو چلے ہیں کہتا ہے بن سنے ہی میں خوب جانتا ہوں تم تو کرو ہو صاحبی بندے میں کچھ رہا نہیں آرزوے جہان ہوتے ہیں یہ جرم ہے تو ایسے گنہگار بہت ہیں دل زینہار دیکھ خبردار بہت ہیں نہ چوب گل نے دم مارا نہ چھڑیاں بید کی ہلیاں کہ موئے قید میں دیوار بہ دیوار چمن شمع روشن کے منھ پہ نور نہیں ہم دل جلوں کی خاک جہاں میں کدھر نہیں مانند جام خالی گل سب جماہیاں ہیں ولے کم ہیں بہت وے لوگ جن کو یار کہتے ہیں ورنہ یہ کنج قفس بیضۂ فولاد نہیں مہلت ہمیں بسان شرر کم بہت ہے یاں اور مطلق اب دماغ اپنا وفا کرتا نہیں اب دل گرفتگی سے آزار کھینچتے ہیں مانا کیا خدا کی طرح ان بتاں کو میں فریاد کریں کس سے کہاں جاکے پکاریں عمر گذری پر نہ جانا میں کہ کیوں دل گیر ہوں الٰہی شکر کرتا ہوں تری درگاہ عالی میں روز برسات کی ہوا ہے یاں یہیں آگے بہاریں ہو گئی ہیں یوں نہ کرنا تھا پائمال ہمیں زمانہ ہووے مساعد تو روزگار کریں نہ گلے سے میرے اترا کبھو قطرہ آب تجھ بن دیتا ہے آگ رنگ ترا گلستاں کے تیں کوئی ہم سے سیکھے وفاداریاں وقت ملنے کا مگر داخل ایام نہیں اس چرخ نے کیاں ہیں ہم سے بہت ادائیں تو بھی ہم دل کو مار رکھتے ہیں رہ عشق میں پھر خطر کچھ نہیں گوش گل سے لگتے تھے جاکے سو وہ موسم نہیں ہوئے ہیں دل جگر بھی سامنے رستم ہیں یہ دونوں پر تمامی عتاب ہیں دونوں پر وفا کا برا کیا تونیں ترے غم کو اکیلا چھوڑ کر پیارے کہاں جائوں سب کو دعویٰ ہے ولے ایک میں یہ جان نہیں اندھیری رات ہے برسات ہے جگنو چمکتے ہیں پر ساکنوں میں واں کے کوئی آدمی نہیں میں ترے کان کھول رکھتا ہوں یمنی کو وے نام رکھتے ہیں آنکھیں نیچی کر گیا گل باغ میں تم سے کتنے ہماری جیب میں ہیں ہے سیر مفت میر تجھے پھر جہاں کہاں نکالا سر سے میرے جاے مو خار مغیلاں کو کہ بھر جھولی نہ یاں سے لے گئی گل ہاے حرماں کو کہتا ہے ترا سایہ پری سے کہ ہے کیا تو ہم تو ہوں بدگمان جو قاصد رسول ہو ہاں کہو اعتماد ہے ہم کو پھر ایک بس ہے وہی گو ادھر خدائی ہو کیا جانے منھ سے نکلے نالے کے کیا سماں ہو آرزو ہے کہ تم ادھر دیکھو رکھے خدا جہاں میں دل بے قرار کو صحبت رکھے گلوں سے اتنا دماغ کس کو رات جاتی ہے اسی غم میں کہ فردا کیا ہو اوروں سے مل کے پیارے کچھ اور ہو گیا تو معشوق کا ہے حسن اگر دل نواز ہو پھر مر بھی جایئے تو کسو کو خبر نہ ہو آنکھ اٹھاکر جب دیکھے ہیں اوروں میں ہنستے جاتے ہو اور رسوائی کا اندیشہ جدا رکھتا ہو قد قامت یہ کچھ ہے تمھارا لیکن قہر قیامت ہو جنس تقویٰ کے تئیں صرف مئے خام کرو ہم فراموش ہوئوں کو بھی کبھو یاد کرو آئینہ ہو تو قابل دیدار کیوں نہ ہو ناسور چشم ہو مژہ خوں بار کیوں نہ ہو ویسا ہے پھول فرض کیا حور کیوں نہ ہو کچھ ہم نے کی ہے ایسی ہی تقصیر کیوں نہ ہو لے گئی ہیں دور تڑپیں سایۂ دیوار کو کوئی تو چاہیے جی بھی نیاز کرنے کو دیکھا کریں ہیں ساتھ ترے یار ایک دو اس ستم کشتہ پہ جو گذری جفا مت پوچھو ٹکڑے ٹکڑے ہوا جاتا ہے جگر مت پوچھو جی ہی جانے ہے آہ مت پوچھو ایک دم چھوڑ دو یوں ہی مجھے اب مت پوچھو کیا آفت آگئی مرے اس دل کی تاب کو عشق کیسا جس میں اتنی روسیاہی بھی نہ ہو اب کار شوق اپنا پہنچا ہے یاں تلک تو نومیدیاں ہیں کتنی ہی مہمان آرزو وہی دور ہو تو وہی پھر نہ آ تو ٹک اک خاطر خواب صیاد کیجو جو کچھ کہ تم سے ہوسکے تقصیر مت کرو میر کے یار کی طرح دیکھو دل بھر رہا ہے خوب ہی روئوں گا دیکھیو خانہ بہ خانہ در بہ در شہر بہ شہر کو بہ کو مجروح دل کو میرے کانٹوں میں مت گھسیٹو جو نہ مانو تو انتہا لے تو ہم بے گنہ اس کے ہیں گنہگار ہمیشہ دلیل اس کی نمایاں ہے مری آنکھیں ہیں خوں بستہ وہ نمک چھڑکے ہے مزہ ہے یہ شیخ کیوں مست ہوا ہے تو کہاں ہے شیشہ پر ہوسکے تو پیارے ٹک دل کا آشنا رہ کیا پوچھتے ہو الحمدللہ زمین میکدہ یک دست ہے گی آب زدہ ناحق ہماری جان لی اچھے ہو واہ واہ کچھ سنی سوختگاں تم خبر پروانہ تو بھی ہم غافلوں نے آ کے کیا کیا کیا کچھ جی ہی جاتے نظر آئے ہیں اس آزار کے ساتھ زلف اس کی ہے ایک مار سیاہ اس زمانے میں گئی ہے برکت غم سے بھی یعنی طاقت آزمائی ہوچکی اس کی ہوا میں ہم پہ تو بیداد ہو گئی نظر اس طرف بھی کبھو تھی کسو کی ہم نے بھی طبع آزمائی کی یہ بلا آسمان پر آئی بلکہ دی جان اور آہ نہ کی آخر کو گرو رکھا سجادئہ محرابی طرح اس میں مجنوں کی سب پا گئی ہم چھوڑی مہر اس کی کاش اس کو ہووے کیں بھی جلے دھوپ میں یاں تلک ہم کہ تب کی یوں پھونک کرکے خاک مری سب اڑا گئی نگاہ چشم ادھر تونے کی قیامت کی ہے سزا تجھ پہ یہ گستاخ نظر کرنے کی غموں نے آج کل سنیو وہ آبادی ہی غارت کی سر پر مرے کھڑی ہو شب شمع زور روئی کہ میری جان نے تن پر مرے گرانی کی کیجیے کیا میر صاحب بندگی بے چارگی جو اپنے اچھے جی کو ایسی بلا لگائی صحبت ہماری یار سے بے ڈھب بگڑ گئی شاید کہ بہار آئی زنجیر نظر آئی اے مری موت تو بھلی آئی عید آئی یاں ہمارے بر میں جامہ ماتمی اس دل کے تڑپنے نے کیا خانہ خرابی کی بے قراری کو جانے تب کوئی دیوانگی کسو کی بھی زنجیر پا نہ تھی یار کے تیر جان لے جا بھی رشک سے جلتے ہیں یوسف کے خریدار کئی صورت حال تجھے آپھی نظر آوے گی میں نے مر مر کے زندگانی کی یاں دکانیں ہیں کئی چاک گریبانوں کی اکت لے کے آخر ادا کیا نکالی نہ اس دیار میں سمجھا کوئی زباں میری اپنی جگہ بہار میں کنج قفس رہی بیٹھ جا چلنے ہار ہیں ہم بھی اے عمر گذشتہ میں تری قدر نہ جانی دو دو بچن کے ہونے میں اک بات ہو گئی کسو سے کام نہیں رکھتی جنس آدم کی سجدہ اس آستاں کا کیا پھر وفات کی پژمردہ اس کلی کے تئیں بھی ہوا لگی اس ماہرو کے آگے کیا تاب مشتری کی یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے سنا کریے کہ یہ بھی اک سخن ہے آئے جو ہم چمن میں ہوکر اسیر آئے پردہ اٹھا تو لڑیاں آنکھیں ہماری ہم سے یہی بات ہم چاہتے تھے خدا سے کہ بل دے باندھتے ہیں پیچ پگڑی کے بھی بالوں سے دل ساکنان باغ کے تجھ سے اٹک گئے موند لیں آنکھیں ادھر سے تم نے پیارے دیکھیے آخر ہیں تری آنکھوں کے ہم دیکھنے والے کہ ہمراہ صبا ٹک سیر کرتے پھر ہوا ہوتے گل اک دل ہے جس میں تری چاہ ہے بو گئی کچھ دماغ میں گل کے جان کے دینے کو جگر چاہیے یہ نمائش سراب کی سی ہے ساتھ لیے داغ جگر جائیں گے عمر رفتہ کی یہ نشانی ہے گلوں نے جن کی خاطر خرقے ڈالے پس ہم نہ برا مانیں تو کون برا مانے ایسے ویرانے کے اب بسنے کو مدت چاہیے دکھلائی دے جہاں تک میدان ہورہا ہے ہر ہر قدم کے اوپر پتھر جگر کریں گے اس پردے ہی میں خوباں ہم کو سلا رکھیں گے پھر عمر چاہیے گی اس کو بحال آتے نہ نکلا کبھو عہدئہ مور سے یاں سلیماں کے مقابل مور ہے ملتجی ناچار ہوا چاہیے پامال ہو گئے تو نہ جانا کہ کیا ہوئے اک نظر گل دیکھنے کے بھی ہمیں لالے پڑے دل نے صدمے بڑے اٹھائے تھے نگاہیں اٹھ گئیں طوفان پر سے بڑی کلول ٹلی ہے جان پر سے پر نہ اتنا بھی کہ ڈوبے شہر کم کم رویئے دود جگر سے میرے یہ چھت سب سیاہ ہے تکلف برطرف بے مہر ہے یاری کو کیا جانے کتنے اک اشک ہوئے جمع کہ طوفان ہوئے مر جائے ولے اس کو یہ آزار نہ ہووے اللہ کی قدرت کا تماشا نظر آوے اس زندگی کرنے کو کہاں سے جگر آوے تم نے حقوق دوستی کے سب ادا کیے سپہر نیلی کا یہ سائبان جل جاوے سواد بر مجنوں تو چراگاہ غزالاں ہے پر اس کے جی میں ہم سے کیا جانیے کہ کیا ہے تری تلاش میں اک دل کدھر کدھر کریے قرباں ترے ہر عضو پہ نازک بدنی ہے پر ہم جو نہ ہوں گے تو بہت یاد کروگے ہم تو اے ہم نفساں دیر خبردار ہوئے توانائی کا منھ دیکھا نہیں ان نے کہ کیسا ہے ہماری بیکسی پر زار باراں دیر روتا ہے رہ سکے ہے تو تو رہ یاں ہم چلے اس کتے نے کرکے دلیری صید حرم کو مارا ہے خمیازہ کش جو ہوں گے ملنے کے کیا کریں گے اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے جو میں ہر اک مژہ دیکھوں کہ یہ تر ہے کہ یہ نم ہے درد بے اختیار اٹھتا ہے ّسینکڑوں ہم خوں گرفتہ ہیں وہ قاتل ایک ہے ایک ایک سخت بات پہ برسوں اڑے رہے تیرا کوچہ ہم سے تو کہہ کس کی بسمل گاہ ہے ہم تو بشر ہیں اس جا پر جلتے ہیں ملک کے امید عیادت پر بیمار رہا کیجے پھر دل ستم رسیدہ اک ظلم کر رہا ہے ہمارے چہرے کے اوپر بھی رنگ تھا آگے کیا آرزو تھی ہم کو کہ بیمار ہو گئے بھوکوں مرتے ہیں کچھ اب یار بھی کھا بیٹھیں گے شور سے جیسے بان جاتا ہے بھول تو ہم کو گئے ہو یہ تمھیں یاد رہے رومال دو دو دن تک جوں ابرتر رہے ہے ٹک گوش رکھیو ایدھر ساتھ اس کے کچھ خبر ہے پھر چاہ جس کی مطلق ہے ہی نہیں ہنر ہے اس دل جلے کے تاب کے لانے کو عشق ہے صید بندوں نے جال ڈال رکھے جی میں کیا کیا خیال آتا ہے اب صبح ہونے آئی ہے اک دم تو سویئے جان کو اپنی گل مہتاب انگارے ہوئے زمیں سخت ہے آسماں دور ہے پیشانی پہ دے قشقہ زنار پہن بیٹھے ہر اک لخت جگر کے ساتھ سو زخم کہن نکلے اب تلک نیم جان ہے پیارے ہونٹوں پہ جان آئی پر آہ وے نہ آئے جو گیا ہو جان سے اس کو بھی جانا کیجیے اب کہو اس شہر نا پرساں سے کیدھر جایئے یہ رات نہیں وہ جو کہانی میں گذر جائے پر قلم ہاتھ جو آئی لکھے دفتر کتنے عرش پر برچھیاں چلاتی ہے کیا ناز کر رہے ہو اب ہم میں کیا رہا ہے میں کشتہ ہوں انداز قاتل کا اپنے جلوہ مری گور پر نہ ہووے آنکھیں پھر جائیں گی اب صبح کے ہوتے ہوتے سو کاروان مصر سے کنعاں تلک گئے اکثر ہمارے ساتھ کے بیمار مر گئے رنگیلی نپٹ اس جواں کی طرح ہے نالوں نے میرے ہوش جرس کے اڑا دیے الٰہی اس بلاے ناگہاں پر بھی بلا آوے ہے میر کام میرے تئیں اپنے کام سے وگر قصہ کہوں اپنا تو سنتے اس کو خواب آوے سماجت اتنی بھی سب سے کوئی خدا بھی ہے سو گریبان مرے ہاتھ سے یاں چاک ہوئے اس دل کے تئیں پیش کش تیر کریں گے ٹک آپ بھی تو آیئے یاں زور بائو ہے اٹھے ہے فتنہ ہر اک شوخ تر قیامت سے دل داغ گشتہ کباب ہے جگر گداختہ آب ہے تس پہ یہ جان بلب آمدہ بھی محزوں ہے زاہد جو صفت تجھ میں ہے سو زن جلبی ہے ہوں میں چراغ کشتہ باد سحر کہاں ہے نالان و مضطرب پس دیوار کون ہے شمع مزار میر بجز آہ کون ہے آنکھیں نہ کھولوں تجھ بن مقدور ہے تو یہ ہے کیا کیا نہ ابر آکر یاں زور زور برسے دل کی معاملت ہے کیا کوئی خوار ہووے ہزار حیف کمینوں کا چرخ حامی ہے کیا جانیے کیا ہو گا آخر کو خدا جانے چھیڑ رکھی ہے تم نے کیا ہم سے رنج و محنت کمال راحت ہے کیا تازہ کوئی گل نے اب شاخ نکالی ہے ٹہنی جو زرد بھی ہے سو شاخ زعفراں ہے کیا جی تدرو کا جو ترے آگے چل سکے اس کو جگر بھی شرط ہے جو تاب لا سکے دامن پکڑ کے یار کا جو ٹک نہ رو سکے بس اے تب فراق کہ گرمی میں مر گئے مرنا پڑا ضرور ترے غم میں اب مجھے بس ہے یہ ایک حرف کہ مشتاق جانیے گذرنا جان سے آساں بہت مشکل ہے کیا جانے آہ کریے کہ ٹک ہوا ہووے دن گذر جائیں ہیں پر بات چلی جاتی ہے کیا کیجے میری جان اگر مر نہ جایئے ہائے رے ذوق دل لگانے کے ایسے گئے ایام بہاراں کہ نہ جانے بے طاقتی دل کو بھی مقدور ہوا ہے ہر سرحرف پہ فریاد نہایت کیجے آج کل مجھ کو مار رہتا ہے جو ہے سو کوئی دم کو فیصل ہے دل کے سے نالوں کا ان پردوں میں کچھ آہنگ ہے ملک ان ستم زدوں کا سب پاک ہو گیا ہے دے بھی مے ابر زور آیا ہے کہ میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے آ بوالہوس گر ذوق ہے یہ گو ہے یہ میدان ہے غمزدوں اندوہ گینوں ظلم کے ماروں میں تھے واں یہ عاجز مدام ہوتا ہے وقت شکیب خوش کہ گیا درمیان سے اس گریباں ہی سے اب ہاتھ اٹھایا ہم نے پھرتے ہیں ہم بھی ہاتھ میں سر کو لیے ہوئے الم جو یہ ہے تو دردمندو کہاں تلک تم دوا کروگے بائو سے اک دماغ نکلے ہے دریاے موج خیز جہاں کا سراب ہے چپکے باتیں اٹھائے گئے سر گاڑے ووہیں آئے گئے ہماری خاک پر بھی رو گیا ہے دل پر خوں کی اک گلابی سے تا صبح دوصد نالہ سر انجام کریں گے رنگ رو کو چمن نیاز کرے سفر کا بھی رہے خطرہ کہ اس منزل سے جانا ہے تیرا بیمار آج تو خوش ہے کہ عالم جوان سیہ پوش ہے بتاں دلوں میں تمھارے خدا کا ڈر بھی ہے عقل گئی زاہد بدذات کی معشوق بھی ہمارا محبوب آدمی ہے دشت میں آندھیاں چلا ویں گے ہجر کی کرنی پڑی ہے نازبرداری مجھے میری توبہ کا جان ڈرتا ہے ابرو تو یک طرف پلک اس کی نہیں ہلی کہو کس طرح نئیں صبا چوربادی چلا ہے یار کے کوچے کو اور مجھ سے چھپاتا ہے کچھ ٹھہرتی ہی نہیں کوئی کہے تو کیا کہے ہوا ہوں زعفراں کا کھیت تیرے عشق میں پیارے خون دل ہی کا اب مزہ چکھیے مداوا سے مرض گذرا کہو اب میر کیا کریے آب ہو جائے کہ یہ دل خلۂ پہلو ہے دور سے ایک نظر دیکھ کے جانے سے گئے شمع و چراغ بزم میں خاموش ہو گئے دریا کے بھی ہونٹ جا سلے ہے اب آئے تم تو فائدہ ہم ہی نہیں رہے پر اس روش کو تیری یہ لوگ کیا کہیں گے ہم کو دیکھو کہ لگے چلنے تو جاتے ہی رہے وہ اسکندر گیا یاں سے تو دونوں ہاتھ خالی تھے بیتاب کر کے خاک میں ہم کو ملا گئے ملک دل ان نے صاف لوٹا ہے جی میں ہے کبھو حال غریبانہ کہیں گے کر اے طپش جگر کی اب تو ہی آبیاری وہ شگفتہ ہے یہ گرفتہ ہے اے آفتاب تیرا منھ تو طباق سا ہے شاعروں نے بھی فکر کر دیکھے کیسے ہی ہوں گے ہم گئے گذرے گو مثل ہو آنکھ پھوٹی پیر گئی ان ساحروں نے ایسے منھ عاشقوں کے باندھے یہ نہ منھ دیکھے کی سی میں نے کہی ہاتھ کانوں پہ رکھ گئے سارے اڑ گئے آئینے کے توتے سے اول عشق ہی میں آخر ہے اسی کی باغ میں ہوا دیکھی لکھا ہے گر کہیں سہوالقلم ہے اس پہ گویا کہ قرض کھایا ہے جو ہو شمار دم میں اس کی امید کیا ہے راہ کی بات کھوئے دیتی ہے دل رفتہ رفتہ غم میں آدھا نہیں رہا ہے Rate this:اسے شیئر کریں:Twitterفیس بکاسے پسند کریں:پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
بہت ہی اچھی ویب سائٹ ہے سخن سرا سارے اساتذہ اور مختلف شعراہ کی شاعری با آسانی پڑھنے کو مل جاتی ہے پسند کریںپسند کریں جواب دیں
سخن سرا بہت ہی خوبصورت ویب سائٹ ہے سارے اساتذ
پسند کریںپسند کریں
بہت ہی اچھی ویب سائٹ ہے سخن سرا سارے اساتذہ اور مختلف شعراہ کی شاعری با آسانی پڑھنے کو مل جاتی ہے
پسند کریںپسند کریں