کلامِ حالی کلامِ حالی الطاف حسین حالی وہ دل کہ خاص محرم بزم حضور تھا اے بہار زندگانی الوداع جس گھر سے سر اٹھایا اس کو بٹھا کے چھوڑا گو ہوں سب کی جدا جدا اغراض مال مہنگا نظر آتا تو چکایا جاتا کیمیا کو طلا سے کیا مطلب تیرا ہی رہ گیا ہے لے دے کے اک سہارا کی بھی اور کسی سے آشنائی کی پھر کئے سے اپنے ہم پچھتائیں کیا گویا نہ رہا اب کہیں دنیا میں ٹھکانا اور معرکۂ گردش ایام ہے درپیش اب دکھائے گا یہ شکلیں نہ زمانہ ہرگز ہو گئی اک اک گھڑی تجھ بن پہاڑ پر جوانی ہم کو یاد آئی بہت بن آئیگی نہ درد کا درماں کئے بغیر قبضہ ہو دلوں پر کیا اور اس سے سوا تیرا آتا ہے دور ہی سے ہم کو نظر گھر اپنا جب کبھی جیتے تھے ہم اے بذلہ سنج وہ حوصلہ رہا نہیں صبر و قرار کا یہ بھید ہے اپنی زندگی کا بس اس کا چرچا نہ کیجئے گا تیرا قبلہ ہے جدا، میرا جدا اے زاہد میری ہی طرح تو بھی غیروں سے خفا ہوتا بات اس کی کاٹتے رہے اور ہمزباں رہے بدنام ہی دنیا میں نکو نام ہے گویا احسان یہ نہ ہر گز بھولیں گے ہم تمہارا گویا ہمارے سر پہ کبھی آسماں نہ تھا چھیڑو نہ تم کو میرے بھی منہ میں زباں ہے اب گرچہ اُترے جی سے دل اکثر ابا کرتا رہا کوئی مل گیا گر ہمیں یار واعظ بلکہ جام آبِ کوثر سے لذیذ سبحہ و سجادہ ہیچ اور جبہ و دستار ہیچ سخن پر ہمیں اپنے رونا پڑے گا کس توجہ سے پڑھ رہا ہے نماز تو بھی کھانے میں نہیں محتاط شیخ دل کو یہ کیسی لگا دی تو نے چاٹ کاٹنا ہے شب تنہائی کا نہ وہ دیوار کی صورت ہے، نہ گھر کی صورت بلبل بہت ہے دیکھ کے پھولوں کو باغ باغ ناصح قوم اس پہ کہلاتے ہیں آپ ہو جہاں راہزن اور راہنما ایک ہی شخص اک یہ لپکا دیکھئے کب جائے گا جس پہ بھولے تھے ہم وہ بات نہیں Rate this:اسے شیئر کریں:Twitterفیس بکاسے پسند کریں:پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔