مصطفٰی خان شیفتہ کی غزلیں فرد فرد غیر مردّف کہ نہ زاہد کریں جہاں پرہیز یہ ہمارا ہے ثمرہ اخلاص مثل زبانِ نطق قلم کی زبانِ حال ا آرے سے اگر چیرے تو میں اف نہیں کرتا دل گوشت ہے ناخن سے جدا ہو نہیں سکتا پنجۂ خور نے کیا چاک گریباں میرا پوچھتے ہیں ملک الموت سے انجام اپنا نہ شوقِ شعرِ تر و بذلہ ہائے رنگیں کا آخر غلام ہوں میں تمہارا قدیم کا کیا خوب پند گو بھی ہے محتاج پند کا یا رب ادھر بھی بھیج دے جھونکا نسیم کا کچھ اور رنگ ڈھنگ ہوا کائنات کا ناچار ہوں کہ حکم نہیں کشفِ راز کا کہ کچھ حظ اٹھے سیرِ مہتاب کا گیرا مگر نہیں ہے نفس عندلیب کا ہے گلہ اپنے حالِ ابتر کا مجھ پر گلہ رہا ستمِ روزگار کا سمجھے جو گرمیِ ہنگامہ جلانا دل کا ہم خاص نہیں اور کرم عام نہ ہو گا انفاسِ باد میں نفسِ آشنا نہ تھا ہوش و حواس و عقل و خرد کا پتا نہ تھا شمع ساں مجبورِ خوئے آتشیں تو کب نہ تھا ہر کہیں کس دن نہ تھا میں، ہر کہیں تو کب نہ تھا ارمان عدو کا بھی نکل جائے تو اچھا صبح بلبل کی روش ہمدمِ افغاں دیکھا گستاخیوں میں بھی مجھے پاسِ ادب رہا وہ حسن کہ خورشید کے عہدے سے بر آیا بارے مرنا تو مرے کام آیا وہ تو آئے نہیں میں آپ میں کیوں کر آیا کچھ تمہارا بھی کرم یاد آیا دشمن کو اور دوست نے دشمن بنا دیا فتنۂ حشر کو رفتار نے سونے نہ دیا جو پوچھے مہربانی کیا، وفا کیا مرگِ مفاجات نے یہ کیا کیا تلون سے ہے تم کو مدعا کیا مفت میں مشہور میں لوگوں میں عامل ہو گیا ب ٹپکا پڑے ہے کیوں نگہ یار سے حجاب جیسے بہار میں ہو عنادل کو اضطراب نیند ان کو میرے ساتھ نہ آئی تمام شب ت کیوں کر نہ کروں شوخیِ دلبر کی شکایت ث نہ ہو بلبلِ زار نالاں عبث دل فریبی کی لگاوٹ، یہ تمہاری ہے عبث ج ہم تابِ آفتاب، فروغِ قمر ہے آج ح کیا دل میں چبھ گئی نگہِ جاں ستاں کی طرح؟ خ غلط ہے بات کہ کم رزق ہے گدا گستاخ د اشکِ خوں سے آ گئیں رنگینیاں صحبت کی یاد ذ تند ہے، تلخ ہے، لیکن ہے مئے ناب لذیذ ر یہ بات ہے بڑی دلِ عاشق طلب سے دور تاب اس جلوے کی لاؤں کیوں کر رہ گئے حیران مجھ کو سب خود آرا دیکھ کر غش آ گیا مجھے انہیں ہشیار دیکھ کر ز ہے خاکِ تن ہوا و ہوا خوں فشاں ہنوز ش طلسمِ ہوش ربا ہے دکانِ بادہ فروش ض غنچے کو جیسے موجۂ بادِ سحر سے فیض ط کیسا ہے دیکھ عکسِ ادا کو ادا سے ربط ظ صنم پرست نہ ہو بندہ ریا واعظ ع پروانے کو پسند نہیں پر سوائے شمع غ رہتا ہے ورنہ گھر میں ترے تا سحر چراغ ف یاں ہوا راز چھپانا موقوف ق دیوانے ہیں اس زلفِ گرہ گیر کے مشتاق ل غالباً کچھ تو ہوا ہے مری تسکیں کا خیال دیکھ اے مرغِ سحر غل نہ مچانا شبِ وصل بگڑی ہے تیرے دور میں ایسی ہوائے گل م مدت سے اسی طرح نبھی جاتی ہے با ہم کہتی ہے بد عدو کو وفا اور وفا کو ہم دانائیوں سے اچھے ہیں نادانیوں میں ہم سخت بے تاب ہیں مزار میں ہم واقف ہیں شیوۂ دلِ شورش ادا سے ہم چ صبح ہونے کی نہیں خجلتِ تاثیر نہ کھینچ ک ہم آرزوئے بوسہ بہ پیغام اب تلک ں تم سے وفا کروں کہ عدو سے وفا کروں طاقت ہمیں کہاں کہ شبِ غم سحر کریں کچھ آگ بھری ہوئی ہے نے میں ایک ہنگامہ ہے اے یار ترے کوچے میں فرش ہے مخمل و کمخواب ترے کوچے میں کب پارہ پارہ پیرہنِ چارہ جو نہیں اے دل یقین جان کہ ہم ہیں تو تو نہیں اے دل! خیالِ طرہ تابیدہ مو نہیں Rate this:اسے شیئر کریں:Twitterفیس بکاسے پسند کریں:پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔