کلام بالحاظ ردیف ا پھول ہنس ہنس کے گلستاں میں فنا ہوجاتا بحر گر بحر نہ ہوتا تو بیاباں ہوتا ڈُبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا اگر اور جیتے رہتے ، یہی انتظار ہوتا حبابِ موجۂ رفتار ہے نقشِ قدم میرا کہ رہے چشمِ خریدار پہ احساں میرا قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا رکھیو یارب یہ درِ گنجینۂ گوہر کھلا درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا عقل کہتی ہے کہ وہ بے مہر کس کا آشنا آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا بن گیا رقیب آخر، تھا جو رازداں اپنا خطِّ جامِ مے سراسر رشتۂ گوہر ہوا پھر غلط کیا ہے کہ ہم سا کوئی پیدا نہ ہوا ہے یہ وہ لفظ کہ شرمندۂ معنی نہ ہوا میں نہ اچھا ہوا، برا نہ ہوا یاں ورنہ جو حجاب ہے، پردہ ہے ساز کا بہ مہرِ صد نظر ثابت ہے دعویٰ پارسائی کا کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا یاں جادہ بھی فتیلہ ہے لالے کے داغ کا زیارت کدہ ہوں دل آزردگاں کا چمن زنگار ہے آئینۂ بادِ بہاری کا بے شانۂ صبا نہیں طُرّہ گیاہ کا وہ اک گلدستہ ہے ہم بیخودوں کے طاقِ نسیاں کا بہ خوں غلطیدۂ صد رنگ، دعویٰ پارسائی کا عبادت برق کی کرتا ہوں اور افسوس حاصل کا گہر میں محو ہوا اضطراب دریا کا نگیں میں جوں شرارِ سنگ نا پیدا ہے نام اس کا بے تکلف، داغِ مہ مُہرِ دہاں ہوجائے گا صاحب کو دل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا تا محیطِ بادہ صورت خانۂ خمیازہ تھا شعلۂ جوّالہ ہر اک حلقۂ گرداب تھا رشتۂٴ ہر شمع خارِ کِسوتِ فانوس تھا تھا سپندِبزمِ وصلِ غیر ، گو بیتاب تھا شوخئِ وحشت سے افسانہ فسونِ خواب تھا گر میں نے کی تھی توبہ، ساقی کو کیا ہوا تھا "عشقِ نبرد پیشہ” طلبگارِ مرد تھا وہ دلِ سوزاں کہ کل تک شمع، ماتم خانہ تھا خونِ جگر ودیعتِ مژگانِ یار تھا اوروں پہ ہے وہ ظلم کہ مجھ پر نہ ہوا تھا آپ آتے تھے، مگر کوئی عناں گیر بھی تھا رازِ مکتوب بہ بے ربطئِ عنواں سمجھا تپشِ شوق نے ہر ذرّے پہ اک دل باندھا جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا دل، جگر تشنۂ فریاد آیا تماشائے بہ یک کف بُردنِ صد دل، پسند آیا دل کہاں کہ گم کیجیے؟ ہم نے مدعا پایا کہتے ہیں ہم تجھ کو منہ دکھلائیں کیا نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا زخم کے بھرنے تلک ناخن نہ بڑھ جائیں گے کیا آتش خاموش کی مانند، گویا جل گیا ب دے بطِ مے کو دل و دستِ شنا موجِ شراب ت دودِ شمعِ کشتہ تھا شاید خطِ رخسارِ دوست جن لوگوں کی تھی درخورِ عقدِ گہر انگشت پھر اک روز مرنا ہے حضرت سلامت ج قمری کا طوق حلقۂ بیرونِ در ہے آج د بارے آرام سے ہیں اہلِ جفا میرے بعد ر نگاہِ شوق کو ہیں بال و پر در و دیوار تغیر ” آبِ برجا ماندہ” کا پاتا ہے رنگ آخر کرتے ہیں مَحبّت تو گزرتا ہے گماں اور تنہا گئے کیوں؟ اب رہو تنہا کوئی دن اور میں ہوں وہ قطرۂ شبنم کہ ہو خارِ بیاباں پر گریباں چاک کا حق ہو گیا ہے میری گردن پر جلتا ہوں اپنی طاقتِ دیدار دیکھ کر جانے گا اب بھی تو نہ مرا گھر کہے بغیر ز گزرے ہے آبلہ پا ابرِ گہربار ہنوز ہے داغِ عشق، زینتِ جیبِ کفن ہنوز کیا نہیں ہے مجھے ایمان عزیز س دامِ خالی ، قفَسِ مُرغِ گِرفتار کے پاس ع ہوئی ہے آتشِ گُل آبِ زندگانیِ شمع ف مجبور یاں تلک ہوئے اے اختیار ، حیف ل بُلبُل کے کاروبارپہ ہیں خندہ ہائے گُل م رکھ لی مرے خدا نے مری بےکسی کی شرم برق سے کرتے ہیں روشن، شمعِ ماتم خانہ ہم عبث محفل آرائے رفتار ہیں ہم ن ورنہ ہم چھیڑیں گے رکھ کر عُذرِ مستی ایک دن کھِل گئی ماندِ گلُ سوَ جا سے دیوارِ چمن بناۓ خندۂ عشرت ہے بر بِناۓ چمن و بھولا ہوں حقِّ صحبتِ اہلِ کُنِشت کو مرا ہونا برا کیا ہے نوا سنجانِ گلشن کو ہو گۓ سب ستم و جَور گوارا ہم کو صد رہ آہنگِ زمیں بوسِ قدم ہے ہم کو مجھ کو بھی پوچھتے رہو تو کیا گناہ ہو کہ چشمِ تنگ شاید کثرتِ نظّارہ سے وا ہو کہے سے کچھ نہ ہوا، پھر کہو تو کیوں کر ہو نہ ہو جب دل ہی سینے میں تو پھر منہ میں زباں کیوں ہو گر کمیں گاہِ نظر میں دل تماشائ نہ ہو کیجے ہمارے ساتھ، عداوت ہی کیوں نہ ہو ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو یعنی یہ میری آہ کی تاثیر سے نہ ہو چ اگر شراب نہیں انتظارِ ساغر کھینچ ک کون جیتا ہے تری زُلف کے سر ہونے تک کیا مزا ہوتا ، اگر پتھر میں بھی ہوتا نمک وضع میں گو ہوئی دو سر، تیغ ہے ذوالفقار ایک گ یعنی، بغیر یک دلِ بے مُدعا نہ مانگ ں رکھتا ہے ضد سے کھینچ کے باہر لگن کے پاؤں وہ شب و روز و ماہ و سال کہاں بارے اپنی بے کسی کی ہم نے پائی داد، یاں یہ بھی اے چرخِ ستمگار! کروں یا نہ کروں بوسے کو پُوچھتا ہوں مَیں، منہ سےمجھے بتا کہ یُوں میں گیا وقت نہیں ہوں کہ پھر آ بھی نہ سکوں میں دشتِ غم میں آہوئے صیّاد دیدہ ہوں گراک ادا ہو تو اُسے اپنی قضا کہوں ہے حیا مانعِ اظہار، کہوں یا نہ کہوں روئیں گے ہم ہزار بار، کوئی ہمیں ستائے کیوں یاں آ پڑی یہ شرم کہ تکرار کیا کریں یہ سُوء ظن ہے ساقئ کوثر کے باب میں ہُوا ہے تارِ اشکِ یاس، رشتہ چشمِ سوزن میں شب ہائے ہجر کو بھی رکھوں گر حساب میں خاک ایسی زندگی پہ کہ پتھر نہیں ہُوں میں تعجّب سے وہ بولا یوں بھی ہوتا ہے زمانے میں اُور اس کے سواکچھ نہیں معلوم کہ کیا ہیں ہم بھی مضموں کی ہَوا باندھتے ہیں خیاباں خیاباں اِرم دیکھتے ہیں کبھی صبا کو کبھی نامہ بر کو دیکھتے ہیں ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو برا کہتے ہیں ایک چکّر ہے مرے پاؤں میں زنجیر نہیں اِک چھیڑ ہے وگرنہ مراد امتحاں نہیں انہیں ہنساکے رلانا بھی کوئ بات نہیں جاں سپاری شجرِ بید نہیں سوائے خونِ جگر، سو جگر میں خاک نہیں ہے گریبان ننگِ پیراہن جو دامن میں نہیں یعنی ہمارے@ جیب میں اک تار بھی نہیں ھ لبوں پہ جان بھی آجاۓ گی جواب کے ساتھ جاہ و جلال عہدِ وصالِ بتاں نہ پوچھ جس کی بہار یہ ہو پھر اس کی خزاں نہ پوچھ ہ ہوا ہے موجبِ آرامِ جان و تن تکیہ ی میرے دکھ کی دوا کرے کوئی مشکل کہ تجھ سے راہِ سخن وا کرے کوئی دونوں کو اک ادا میں رضامند کر گئی کوئی صورت نظر نہیں آتی اور پھر وہ بھی زبانی میری مبادا خندۂ دنداں نما ہو صبح محشر کی لکھ دیجیو یا رب اسے قسمت میں عدو کی قسمت کھلی ترے قد و رخ سے ظہور کی فلک کا دیکھنا تقریب تیرے یاد آنے کی اترائے کیوں نہ خاک سرِ رہگزار کی نمک پاشِ خراشِ دل ہے لذّت زندگانی کی سو رہتا ہے بہ اندازِ چکیدن سر نگوں وہ بھی تم ہو بیداد سے خوش، اس سے سوا اور سہی یہ بھی اے حضرتِ ایّوب! گِلا ہے تو سہی امتحاں اور بھی باقی ہو تو یہ بھی نہ سہی میری وحشت تری شہرت ہی سہی ے جان جائے تو بلا سے، پہ کہیں دِل آئے یک مرتبہ گھبرا کے کہو کوئی کہ وو آئے غرورِ دوستی آفت ہے ، تُو دُشمن نہ ہو جائے کیا ہوئی ظالم تری غفلت شعاری ہائے ہائے تاکے خیالِ خاطرِ جلّاد کیجئے رہی نہ طرزِ ستم کوئی آسماں کے لئے جتنے زیادہ ہو گئے اتنے ہی کم ہوئے جوشِ قدح سے بزم چراغاں کئے ہوئے دھوئے گئےہم ایسے کہ بس پاک ہو گئے معشوقِ شوخ و عاشقِ دیوانہ چاہئے مرتے ہیں ، ولے ، اُن کی تمنا نہیں کرتے سن لیتے ہیں گو ذکر ہمارا نہیں کرتے چل نکلتے جو مے پیے ہوتے دل ہی جب درد ہو تو کیا کیجے صبح کے مانند ، زخمِ دل گریبانی کرے جفائیں کر کے اپنی یاد ، شرما جائے ہے ، مُجھ سے نقشِ پا جو کان میں رکھتا ہے انگلی جادہ سے تنگ آئے ہیں ہم ایسے خوشامد طلبوں سے میری رفتار سے بھاگے ہے ، بیاباں مجھ سے کیا طرفہ تمنّا ہے امیدِ کرم تجھ سے ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے رکھتے ہیں عشق میں یہ اثر ہم جگر جلے حورانِ خلد میں تری صورت مگر ملے بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے کیا بنے بات ، جہاں بات بنائے نہ بنے جاں کالبدِ صورتِ دیوار میں آوے ہم رہیں یوں تشنہ لب پیغام کے حیراں کیے ہوئے ہیں دلِ بے قرار کے دل کے سب زخم بھی ہم شکلِ گریباں ہوں گے کہ اپنے سائے سے سر پاؤں سے ہے دو قدم آگے ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے پائے طاؤس پئے خامۂ مانی مانگے خارِ پا ہیں جوہرِ آئینۂ زانو مجھے صبحِ وطن ہے خندۂ دنداں نما مجھے سُبحۂ زاہد ہوا ہے ، خندہ زیرِ لب مجھے کر گئی وابستۂ تن میری عُریانی مجھے میرا ذمہ، دیکھ کر گر کوئی بتلا دے مجھے تب اماں ہجر میں دی بردِ لیالی نے مجھے سایۂ شاخِ گُل افعی نظر آتا ہے مجھے اِسے ہم سانپ سمجھے اور اُسے من سانپ کا سمجھے اس سال کے حساب کو برق آفتاب ہے داغِ دلِ بے درد، نظر گاہِ حیا ہے اک شمع ہے دلیلِ سحر سو خموش ہے نافہ دماغِ آہوئے دشتِ تتار ہے برقِ خرمنِ راحت، خونِ گرمِ دہقاں ہے سینہ جویائے زخمِ کاری ہے جس میں کہ ایک بیضۂ مور آسمان ہے تسکیں کو دے نوید@ کہ مرنے کی آس ہے تسلّی جانِ بلبل کے لئے خندیدنِ گل ہے ذرّہ ذرّہ اس جہاں کا اضطراب آمادہ ہے کمیـنِ درد میں پوشـیدہ رازِ شـادمـانی ہے جسے کہتے ہیں نالہ وہ اسی عالم کا عنقا ہے سرمہ تو کہوے کہ دودِ شعلہ آواز ہے ظاہرا کاغذ ترے خط کا غلط بردار ہے خوش ہوں کہ میری بات سمجھنی محال ہے حذر کرو مرے دل سے کہ اس میں آگ دبی ہے خطِ پیالہ ، سراسر نگاہِ گلچیں ہے کہ تارِ دامن و تارِ نظر میں فرق مشکل ہے موجِ شراب یک مژۂ خوابناک ہے کشاد و بستِ مژہ ، سیلئِ ندامت ہے یعنی اس بیمار کو نظارے سے پرہیز ہے ہر غنچے کا گل ہونا آغوش کشائی ہے خموشی ریشۂ صد نیستاں سے خس بدنداں ہے کہ اِس میں ریزۂ الماس جزوِ اعظم ہے ازل کے دن سے یہ اے یار ہوتی آئ ہے یہ بھی مت کہہ کہ جو کہیے تو گِلا ہوتا ہے اس سے میرا مہِ خورشید جمال اچّھا ہے غُلامِ ساقئ کوثر ہوں، مجھ کو غم کیا ہے تمہیں کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے آخر اس درد کی دوا کیا ہے یہ رنج کہ کم ہے مئے گلفام، بہت ہے مِرا سر رنجِ بالیں ہے ، مِرا تَن بارِ بستر ہے اپنے جی میں ہم نے ٹھانی اور ہے چمن میں خوش نوایانِ چمن کی آزمائش ہے بس نہیں چلتا کہ پھر خنجر کفِ قاتل میں ہے طاقتِ بیدادِ انتظار نہیں ہے نبضِ بیمارِ وفا دودِ چراغِ کشتہ ہے دعوئ جمعیّتِ احباب جائے خندہ ہے شیشۂ مے سروِ سبزِ جوئبارِ نغمہ ہے آئنہ زانوئے فکرِ اختراعِ جلوہ ہے نگاہ دل سے تری سُرمہ سا نکلتی ہے اگر پہلو تہی کیجے تو جا میری بھی خالی ہے میں اسے دیکھوں، بھلا کب مجھ سے دیکھا جائے ہے ہم ہمیشہ مشقِ از خود رفتگی کرتے رہے طاقت کہاں کہ دید کا احساں اٹھائیے بیٹھا رہا اگرچہ اشارے ہوا کیے یہ اگر چاہیں تو پھر کیا چاہیے بھَوں پاس آنکھ قبلۂ حاجات چاہیے تمہیں کہو کہ جو تم یوں کہو تو کیا کہیے ہوا رقیب ، تو ہو ، نامہ بر ہے ، کیا کہیے Rate this:اسے شیئر کریں:Click to share on Twitter (Opens in new window)Click to share on Facebook (Opens in new window)اسے پسند کریں:پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
مرزا کے عشاق کے لیے یہ تحفہ بلاشبہ نایاب ہے مگر کیا ہی اچھا ہو کہ ان کی نثر بھی کوئی شخص یا ادارہ یونیکوڈ میں پیش کر دے۔ پسند کریںپسند کریں جواب دیں
مرزا کے عشاق کے لیے یہ تحفہ بلاشبہ نایاب ہے مگر کیا ہی اچھا ہو کہ ان کی نثر بھی کوئی شخص یا ادارہ یونیکوڈ میں پیش کر دے۔
پسند کریںپسند کریں