داغ دہلوی کی غزلیں ا کچھ ٹھکانہ نظر نہیں آتا کبھی جان صدقے ہوتی، کبھی دل نثار ہوتا مرا مرنا بھی تو میری خوشی سے ہو نہیں سکتا وہ کچھ نہیں کہتا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا محروم رہ نہ جائے کل یہ غلام تیرا ایسے آنے سے تو بہتر تھا نہ آنا تیرا کہیں ہم نے پتہ پایا نہ ہر گز آج تک تیرا پڑی آنکھ جس کوہ پر طور نکلا تمہیں قسم ہے ہمارے سر کی ہمارے حق میں کمی نہ کرنا یا نبی خوب ہوا خوب ہوا خوب ہوا گستاخیوں کرے لب خاموش نقش پا یوں گھر نہ تباہ ہو کسی کا کہتا ہوں برا ہو عاشقی کا اڑا نہ لے کوئی انداز مسکرانے کا یاد آتا ہے ہمیں ہائے زمانہ دل کا اب آ چکا ہے لبوں پر معاملہ دل کا یاں تلک روئے کہ سر دکھنے لگا دل ملا کر مجھی سے ملنا تھا نہ تھا رقیب تو آخر وہ نام کس کا تھا برائی دیکھی، بھلائی دیکھی، عذاب دیکھا، ثواب دیکھا پھر بھی یہ کہوں جلوہ جاناں نہیں دیکھا وعدہ ایسا کوئی جانے کہ مقرر آیا بو سے لینے کے لئے کعبے میں پتھر رکھ دیا تمام رات قیامت کا انتظار کیا تجھ پر آتا ہے مجھے پیار یہ کیا وہ ہاتھ مل کے کہتے ہیں کیا یار مر گیا اس بت کو دیکھتے ہی بس ایمان پھر گیا جھوٹی قسم سے آپ کا ایمان تو گیا د دنیا میں مخمس کا ہمارے نہ کھلا بند ر گر نہ تھی دل میں تو لب پر تیرے آئی کیوں کر غ پروانے دیکھتے ہیں تماشائے باغِ داغ پ جو نہ ملتے تھے سب ملیں گے آپ ں مر گئے لاکھوں اسی ارمان میں ناز والے نیاز کیا جانیں کر چکیں میرے دل میں گھر آنکھیں نہیںمعلوم وہ کیا کرتے ہیں کیا ہوتے ہیں ہم بھی دیکھیں تو اسے دیکھ کے کیا کہتے ہیں کسی سے آج بگڑی ہے کہ وہ یوں بَن کے بیٹھے ہیں وہ کون سی زمیں ہے جہاں آسماں نہیں باعث ترک ملاقات بتاتے بھی نہیں ی ضبط آنکھوں کی مرّوت ہو گئی ے گھر بگاڑیں گے ہزاروں کے، سنورنے والے احسان کا مزا ہے احسان کر کے بھولے دل سے سب کچھ بھلا دیا تو نے رنج بھی ایسے اٹھائے ہیں کہ جی جانتا ہے مجھ کو خبر نہیں مری مٹی کہاں کی ہے کہیے کہیے مجھے برا کہیے Rate this:اسے شیئر کریں:Twitterفیس بکاسے پسند کریں:پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
بہت عمدہ
پسند کریںپسند کریں
کیا کہنے
پسند کریںپسند کریں
بہت خوب بہت ہی عمدہ 👍👌💝
پسند کریںپسند کریں